پاکستان’ عوام اور پاک افواج کے باہمی رشتے

مشرقی پاکستان میں ایوب خان نے جی او سی کی حیثیت سے وہاں کے اپوزیشن لیڈر محمد علی بوگرہ سے اس موقع پر یہ الفاظ کہے تھے Are you looking for a bullet?” کیا تم گولی کا انتظار کر رہے ہو؟ اس ایک جملے کے تجزیے سے بہ آسانی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ فوج کے افسر 1948ء میں ہی سیاسی رہنمائوں پر غلبہ و فوقیت حاصل کرنے کے خواہش مند تھے۔یہ بات اظہر من ا لمشس ہے کہ پاکستان کی آزادی کے حصول میں فوج کا کوئی کردار نہیں تھا مگر آزادی کے بعد اس کے تحفظ کے لئے ایک مضبوط مربوط فوج کی اشد ضرورت تھی’ مسئلہ کشمیر میں کمزور پاک افواج کا جو کردار رہا’ اس نے سکیورٹی کو پاکستان کے اولین اور مرجح مسائل میں سرفہرست بنا دیا تھا چنانچہ پاکستان کے حکمرانوں نے ابتدائی برسوں میں مالی و معاشی تنگدستیوں کے باوجود ملکی بجٹ میں ستر فیصد دفاع کے لئے رکھا ۔ فوجی افسروں کے ان رویوں نے بابائے قوم کو بہت پریشان کیا تھا لہٰذا مختلف مواقع پر اپنی کمزور صحت کے باوجود گزٹیڈ افسروں (سول وملٹری دونوں) سے جب بھی خطاب کیا تو ان کو یہ بات یاد دلانے کی کوشش کی کہ ”آپ لوگوں کا عوام الناس کے ساتھ برتائو اور رویہ حاکم کا نہیں بلکہ خادم کا ہونا چاہئے کیونکہ آپ کا تعلق حکمران طبقہ سے نہیں’ آپ کا تعلق خدمت گاروں کی جماعت سے ہے، آپ عوام الناس میں یہ احساس اجاگر کیجئے کہ آپ ان کے خادم اور دوست ہیں۔”اس سلسلے میں 14 جون 1948ء کو پہلی اور آخری دفعہ سٹاف کالج کوئٹہ میں افسروں سے مخاطب ہوئے تو بغیر کسی لگی لپٹی کے سارے افسروں کو ان کی فراموش کردہ فرض شناسی یاد دلائی، اس موقع پر ان افسروں کو خبردار کیا کہ ان میں سے بعض افسر پاکستان سے کئے اپنے حلف کے مضمرات سے آگاہ نہیں ہیں، اس لئے انہوں نے اپنی تقریر کے دوران ان فوجی افسروں کو یاد دہانی کیلئے ان کا حلف پڑھ کر سنایا اور فرمایا کہ اسے سمجھیں’ اس کے بعد فرمایا کہ جذبہ ہی اصل اہمیت کا حامل ہے میں چاہوں گا کہ آپ اس آئین کا مطالعہ کریں جو اس وقت پاکستان میں نافذ ہے اور اس کے حقیقی، آئینی اور قانونی تقاضوں کا ادراک کریں’ قائداعظم نے افسروں سے خطاب میں تکرار کے ساتھ آئین اور حلف کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ چونکہ قائد اعظم کی زندگی ہی میں پاک افواج کے افسروں نے آئین اور حلف سے ماوراء سرگرمیاں شروع کر دی تھیں، اس لئے آئین و قانون کے مطابق کام کرنے والے عظیم رہنماء نے انہیں آئین و حلف کی فرمانبرداری کی یاد دہانی کرائی اور تاکید کی مگر افسوس صد افسوس کہ قائداعظم کے بعد ہمارے سول وملٹری افسروں میں سے بہت کم نے اس کو درخوراعتنا سمجھا اور اکثر معاملہ و رویہ قائداعظم کے ارشادات و فرمودات و ہدایات کے برعکس رہا۔ فوجی افسروں کی پیشہ ورانہ سرگرمیوں سے ماوراء معاملات میں ملوث ہونے کی دعوت پاکستان کے سیاستدانوں کے کمزور کردار کے سبب پیدا ہوا، اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایوب خان نے اپنی سوانح عمری ”فرینڈز ناٹ ماسٹرز” میں لکھا ہے کہ چھ اکتوبر 1951ء وزیراعظم لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد کراچی میں کئی کابینہ اراکین سے ملا تو کسی نے بھی لیاقت علی خان کا ذکر کیا اور نہ ہی ان سے ہمدردی کا اظہار کیا، میں حیران تھا کہ یہ لوگ اس قدر سنگ دل و بے حس و خود غرض بھی ہو سکتے ہیں، اس موقع پر خواجہ ناظم الدین کو قائل کر لیا گیا کہ وہ گورنر جنرل کا عہدہ چھوڑ کر وزیراعظم بن جائے، اس پر عائشہ جلال نے لکھا ہے کہ ”فوجی اقتدار سے سات سال پہلے سیاسی طاقت پٹڑی سے اتر گئی اور غیر منتخب بیورو کریٹ جانشینوں نے سیاسی منصب سنبھال لئے، اس طرح مسلم لیگ (بانی پاکستان جماعت) کا ملکی امور پر کنٹرول کمزور پڑ گیا، فوج اور بیوروکریسی سیاستدانوں کے مقابلے میں منظم ادارے تھے لہٰذا ان کا اثر و رسوخ بڑھا، غلام محمد’ اسکندر مرزا اور ایوب خان ملک میں سیاہ و سفید کے مالک بن گئے اور جنرل ایوب خان فوجی وردی ہی میں شراکت اقتدار کے مزے لوٹنے لگے اور روایتی سیاستدانوں کے نمائندہ شریف النفس بنگالی وزیراعظم خواجہ ناظم الدین فوجی اور سول ٹیکنوکریٹس کے سانے ٹھہر نہ سکے۔ اس کے بعد ایوب خانی مارشل لاء سے لے کر مشرف تک پاکستان میں فوج نے یہ طے کر لیا کہ ہم سویلین سے زیادہ منظم’ مستعد ‘ مضبوط اور اہلیت و صلاحیت میں آگے ہیں لہٰذا پاکستان میں حکمرانی اور بادشاہ گری کا حق ہمیں حاصل ہے، افکار قائد اعظم کے برعکس بیرکوں سے نکلے ہوئے فوجی افسر جب پرتعیش بنگلوں میں پہنچے تو واپسی کا راستہ ہی بھول گئے جس کا بدترین نتیجہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی صورت میں نکلا جس کا الزام لگانے کیلئے ایک دوسرے سے جھگڑا ہے، مسئلہ کشمیر سے لے کر سیاچین اور کارگل تک کے معاملات میں افواج پاکستان کی من مانیاں شامل ہیں۔ اب یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں رہی کہ جب تک وطن عزیز میں فوج کی سیاست میں مداخلت اور حکمرانی جاری رہے گی، قائداعظم کا وہ پاکستان جس کیلئے عوام نے لاکھوں جانوں کی قربانی دی تھی معرض وجود میں نہیں آسکتا’ فوجی طالع آزمائوں اور نالائق’ نااہل اورکرپٹ سیاستدانوں نے بانی پاکستان اور شہدائے پاکستان کی جمہوری کاوششوں اور عظیم جدوجہد کو اپنی ہوس اقتدار و دولت کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ دس اپریل سے نو مئی تک قائداعظم کا پاکستان ایک ناقابل بیان حالات سے دو چار کردیاگیا، پی ڈی ایم کی حکومت نے جسے حکومت سے نکالے گے وزیراعظم اور اس کی پارٹی امپورٹڈ حکومت کے نام سے پکارتی ہے ملک خداداد کو نازک ترین معاشی’ معاشرتی اور سیاسی بھنور میں پھنسا دیا ہے، تیرہ پارٹیوں کی اتحادی حکومت کی تیرہ مہینوں کی نالائقیاں اپنی جگہ انہوں نے جس چالاکی کے ساتھ افواج پاکستان کو ملک کی سب سے بڑی اور مقبول سیاسی پارٹی کے سامنے لاکھڑا کیا ہے، ملک کی تاریخ میں پہلی دفعہ فوجی تنصیبات پر جس انداز سے لوگ حملہ آور ہوئے ہیں’ اس کی مثال اس سے پہلے کہیں موجود نہیں ہے۔پی ڈی ایم نے فوج کی آڑ اور ایک پیچ پر ہونے کے تاثر کو اپنے سیاسی مخالفین یعنی پی ٹی آئی کو زچ کرنے’ سیاست کے میدان سے نکال باہر کرنے اور جیلوں میں ڈالنے کے لئے خوب استعمال کیا، نو مئی کے حملوں کے بعد بعض مذہبی طبقات بالخصوص اقتدار پرست مولویوں کی خدمات جس انداز میں حاصل کی گئی ہیں’ اس سے افواج پاکستان کو فائدہ پہنچنے کی بجائے نقصان پہنچنے کا خطرہ زیادہ ہے، اس کے معاشرے کے بعض دیگر طبقات کے ذریعے افواج کی حمایت و تائید میں جلسے جلوس اور مظاہرے بھی ملک میں تقسیم کی دراڑ کو وسیع کرنے کا سبب بن سکتے ہیں۔ پی ٹی آئی کی قیادت اور کارکنوں کو دشمن اور دہشت گرد و شرپسند کہلوانا بھی ملک کے وسیع ترمفاد میں قطعاً نہیں۔افواج پاکستان سے 99.9 فیصد عوام اب بھی ٹوٹ کر محبت کرتے ہیں لیکن پی ڈی ایم نے جس ہوشیاری و چالاکی کے ساتھ عوام میں اپنے آپ کو بے گناہ اور ملک میں جو پکڑ دھکڑ ہو رہی ہے اس کو افواج پاکستان کی طرف اشاروں کنایوں میں تبدیل کیا تو عوام کے دلوں میں بدظنی کا پیدا ہونا ایک فطری امر تھا۔ عمران خان کو جس بے ڈھنگے انداز میں رینجرز کے ذریعے عدالت کے اندر گرفتار کرایا گیا وہ بھی عوام کی نظروں میں فوج کے کھاتے میں گیا اور حقیقی شرپسندوں نے موقع پا کر پرامن احتجاج کرنے والوں کی آڑ اور بھیس میں ملک دشمن کو خوش کرنے کا کردار ادا کیا، آج ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ افواج جسے قائداعظم اور عوام نے محبت اور چاہتوں کے ساتھ پیٹ کاٹ کر پالا پوسا’ وطن کی حفاظت کے ساتھ سیاست معاملات سے اپنے آپ کو بے دخل کر دے اور سیاسی جماعتوں کے درمیان سورہ حجرات میں ذکر شدہ ثالث کا کردار ادا کرتے ہوئے غیر جانبدار و شفاف انتخابات اور اس کے نتائج تسلیم کرنے پر مجبور کرے ورنہ نتائج بہت سنگین اور خدانخواستہ ناقابل تلافی بھی ہو سکتے ہیں، بس اب وقت آگیا ہے کہ افواج پاکستان صحیح معنوں میں سیاسی جماعتوں کو آئین پاکستان پر عمل درآمد کرائے اور اپنی پارٹیوں کے اندر بھی جمہوری تقاضوںکے مطابق انتخابات کرانے پر مجبور کریں، الیکشن کمیشن کو خود مختار اور غیر جانبدار بنایا جائے تاکہ انتخابی نتائج پر کسی کو انگلی اٹھانے کا موقع نہ ملے، عدلیہ کو متنازع بنانے سے گریز کیا جائے کیونکہ اگر افواج پاکستان اور عدلیہ بھی خدانخواستہ تقسیم و تنازعات کا شکار ہوئے تو اس کی تلافی پھر کبھی بھی ممکن نہ ہو گی۔

مزید پڑھیں:  جگر پیوند کاری اور بون میرو ٹرانسپلانٹ سنٹرز کا قیام