نوجوان ڈاکٹروں کے مایوس کن حالات

خیبر پختونخوا میں تسلسل سے دوسری حکومت کے دور میں صحت کے شعبے میں بڑے تجربات کئے گئے جن کا حشر سب کے سامنے ہے البتہ صحت کارڈ کی سہولت کو ہرجانب سے ضرور سراہا گیا اور اب جب بھی اس حوالے سے کوئی منفی خبر آتی ہے تو اضطراب وتشویش کااظہار کیا جاتا ہے صحت کارڈ کی سہولت کس قیمت پرملتی ہے اس سے بحث نہیں باوجود اس میں اصلاح اور شفافیت کی ضرورت کے چونکہ عوام اسے سہولت گردانتے ہیں اس لئے اس بارے منفی آراء کا اظہار مناسب نہیں نیز بی آر ٹی کے حوالے سے بھی عوام کی رائے من حیث المجموع مثبت ہے بلکہ تحریک انصاف کا یہ واحد منصوبہ ہے جسے مخالفین بھی سراہتے ہیں ان مثبت کاموں کا ذکر اس لئے ضروری سمجھا کہ میرے پاس جو برقی پیغام آیا ہے اس میں صحت کی سہولتوں اور ہسپتالوںکے حوالے سے کوئی اچھی رائے نہیں دی گئی ہے بلکہ کہا گیا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت میں محکمہ صحت میں بدعنوانی اور بلاوجہ کے تجربات اور سیاسی بھرتیوں نے سارا نظام درہم برہم کرکے رکھ دیا ہے ۔ محولہ پیغام کے مطابق ایک وزیر صحت کو مبینہ بدعنوانی پر ہٹایاگیا جبکہ ایک اور وزیر صحت کو بھی غالباً درون خانہ اختلافات کی نذر کیا گیا عمران خان کے کزن امریکہ میں ہوتے ہوئے یہاں نظام چلاتے رہے ان کی آمدورفت کے اخراجات اپنی جگہ سیاسی بنیادوں پر جو بھرتیاں ہوئیں جب بھی ان کی تحقیقات ہوں گی تو چودہ طبق روشن ہو جائیں گے ۔تدریسی ہسپتالوں میں قسم قسم کی بھرتیاں عہدے اور غیر ضروری انتظامات پر بھاری انتظامی اخراجات کی سوائے اپنوں کو کھپانے کی کوئی اورتوجیہہ ہو ہی نہیں سکتی اور کچھ نہیں تو کم از کم ہائوس جاب کرنے والے ڈاکٹروں کا مسئلہ ہی حل کیا جاتا جو مسلسل سڑکوں پر رہے احتجاجی کیمپ لگائے مگر ان کی ایک نہ سنی گئی جبکہ اس کے مقابلے میں دیگر صوبوں میں نوجوان ڈاکٹروں کے وظائف اور سہولیات کہیں زیادہ اور تسلی بخش ہیں صوبے میں نوجوان ڈاکٹروں سے جو سلوک روا رکھا گیا اس کے بعد میڈیکل کی تعلیم کی طرف بے رغبتی پیدا ہونا فطری امر ہوگا جب نوجوان ڈاکٹروں کو مایوس دیکھیں گے ان کے وظائف میں اضافہ نہ ہو گا سینئر ڈاکٹرز مختلف وجوہات کی بناء پر ہسپتالوں سے فرار اور ریٹائرمنٹ کو ترجیح دینے لگیں تو صحت کی سہولیات اور بہتر علاج کی سرکاری ٹیچنگ ہسپتالوں میں تلاش کار عبث ہو گا یہ تو صحت کارڈ نے بھرم رکھا ہوا ہے کہ اس کے ذریعے مریض مرضی کے مطابق علاج کراسکتا ہے جو وسائل صحت کارڈ کی سہولت کے لئے مختص اور خرچ ہوچکے اگر وہ رقم سرکاری ہسپتالوں میں علاج کی سہولتوں کی بہتری پرخرچ ہوتی تو مریضوں کو مستقل بہتر علاج کی سہولت میسرآتی اور سالانہ بھاری رقم تسلسل کے ساتھ مختص کرنے کی ضرورت نہ پڑتی ہائوس جاب ڈاکٹروں کے وظیفے میں اضافہ کے مطالبات جاری ہیں ساتھ ہی ایک بڑا مسئلہ ان طلبہ کا ہے جوکسی بیرون ملک سے طب کی تعلیم حاصل کرکے آتے ہیں یہاں ان کو ہائوس جاب بغیر وظیفے کے ہی سہی سہولت نہیں دی جارہی ہے حالانکہ ایسے طلبہ کی اکثریت معروف بین الاقوامی اداروں سے فارغ التحصیل ہوتی ہے اور وہ کسی بھی معیار پر پورا اترتے ہیں لیکن یہاں پالیسی ایسی بنا دی گئی ہے کہ ان کو ہر قیمت پر ملکی نظام صحت میں مواقع سے باہر رکھا جائے ۔فارن گریجویٹس اور ہائوس جاب کے عنوان سے ایک برقی پیغام کے مطابق یہ مسئلہ کوئی نیا نہیں بلکہ پرانا ہے۔جب سے طلبا نے ملک پاکستان میں تعلیمی سہولیات کی کمی کیوجہ سے باہر کے ملکوں سے تعلیم حاصل کرنے کے لئے محنت کی ہے ۔اس وقت سے یہ مسئلہ شروع ہوا۔ان فارن گریجویٹس کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا اور ان کو ہاوس جاب کرنے کا موقع نہیں دیا جاتا۔یہ صوبہ خیبر پختونخوا کا حال ہے کہ اپنے صوبے کے نوجوانوں کو آگے بڑھنے کا موقع نہیں دیا جاتا۔اس کے برعکس پنجاب میں ان ڈاکٹروں کو بغیر وظیفہ کے ہائوس جاب کا موقع دیا جاتا ہے اور ان کو اہمیت بھی دی جاتی ہے ۔حالانکہ پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل نے بغیر وظیفہ کے ہائوس جاب پر پابندی لگائی ہے ۔اس پر عدالتوں کے فیصلے ہیں کہ یہ جب سروسز دیں گے تو ان کو برابر کا وظیفہ بھی دیا جائے، مگر اس پر بھی کوئی دھیان نہیں دیتا ۔پہلے ادوار میں کبھی بھی ایسا نہ تھا کہ کوئی ڈاکٹر ہائوس جاب کے بغیر رہ جائے۔اگر حکومت یا پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل اس مسلے کو حل نہیں کرسکتی تو یا تو فارن سے تعلیم حاصل کرنے پر پابندی لگائی جائے یاپھر اس مسئلے کو مستقل بنیادوں پر حل کیا جائے۔جب سے یہ ایم ٹی آئی ایکٹ بنا ہے اس ایکٹ کے بعد یہ مسئلہ اور گھمبیر ہوا ہئے اور یہ بہانہ بنایا جاتا ہے کہ بورڈ آف گورنرز نے پابندی لگائی ہے حالانکہ ان ہسپتالوں میں سینکڑوں لوگوں کو بغیر کسی رولز ریگولیشن کے بھرتی کیا گیا ہے ایک تدریسی ہسپتال کے بارے میں رپورٹ ہے کہ وہاں 1200 لوگوں کو فکس تنخواہ25000 سے 30000پر بھرتی کیا گیاہے، اور کوئی پوچھنے والا نہیں ۔یہ سارے سیاسی لوگوں کے اپنے ہیں۔دیکھا جائے تو ہسپتالوں کا سارا نظام ہی بگاڑ کا شکار بنا دیاگیا ہے کیونکہ پرانے سسٹم میں ایک 20 گریڈ کا ڈاکٹر جو ایڈمنسٹریٹر کہلاتا تھا اپنی ہی تنخواہ میں اپنے دوڈی ایم ایس کے ساتھ پورے ہسپتال کو احسن طریقے سے چلاتا تھا۔اور اب10 کے قریب لوگ20لاکھ روپے تنخواہ ماہانہ پر بھی ہسپتال نہیں چلاسکتے۔ اور پرانے سسٹم میں کبھی بھی آکسیجن کے ختم ہونیکا واقعہ پیش نہ آیا جیسے اس نئے دورمیں کورونا وبا کے دنوں میں پیش آیا جس میں انکوائری ہوئی لیکن اس کا کوئی پتہ نہ چلا کہ کیا ذمہ داروں کے خلاف کوئی کارروائی ہوئی یا نہیں ۔اس کے خلاف پشاور ہائی کورٹ میں رٹ بھی موجود ہے اور وہ سارے ڈاکٹر اسکے باوجود اپنے عہدوں پر فائز ہیں۔یہ چند جھلکیاں اور مثالیں ہیں اصل بات یہ ہے کہ صوبے میں طب کی تعلیم کی مختلف طریقوں سے جس طرح حوصلہ شکنی ہو رہی ہے اور جو ہر قابل کو میڈیکل کالجوں سے امیدو امنگ لے کر نکلنے کے بعد جس طرح استحصال کا نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری ہے اس سے ناانصافیوں کی داستانیں رقم ہوئی ہیں فارن میڈیکل گریجویٹس کو اگر ان کی قابلیت کی بنیاد پر ہائوس جاب کے مواقع نہ دیئے جائیں اور مقامی گریجویٹس کو وظائف اتنے قلیل دیئے جائیں کہ وہ اپنا گزارہ نہ کر سکیں تو پھر اس شعبے کی طرف اچھے طالب علم کب تک اور کیسے متوجہ ہوں گے اور صوبے کے ہسپتالوں کو اچھے ڈاکٹر کہاں سے میسر آئیں گے ۔ میں نے پوری کوشش کی کہ شکایات پر ان حالات میں ہائوس جاب وظیفہ اور ہائوس جاب حصول بارے شکایات کنندگان سے ہمدردی کا اظہار ہی کیا جا سکتا ہے اب تو عبوری اور نگران حکومتیں ہیں مرکزی حکومت بھی اپنے مسائل میں گھری چلی آرہی ہے صوبے میں بالخصوص اور مرکز میں نئی حکومت آنے کے بعد ہی ان سے مطالبات ہوسکیں گے البتہ پی ایم ڈی سی کو ان امور پر غور کرکے کوئی حل ضرورتلاش کرنا چاہئے نیز صحت کے شعبے سے وابستہ سینئر افراد کو اس بارے تجاویز دینی چاہئے کہ حکومت اور متعلقہ فورم کو اس سلسلے میں کیا کرنا چاہئے اور نوجوان ڈاکٹروں کا مستقبل کس طرح محفوظ بنایا جائے۔

مزید پڑھیں:  قصے اور کہانی کے پس منظر میں