بعد ازخرابی بسیار

صدرِ مملکت عارف علوی نے کہا ہے کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ 9 مئی کے واقعات کی نہ صرف مذمت ہونی چاہیے بلکہ جو لوگ اس میں ملوث ہیں جنہوں نے یہ سب کیا ان کے خلاف کارروائیاں ہونی چاہئیں اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کو بھی ان واقعات کی مذمت کرنی چاہیے۔نجی ٹی وی کو دیئے گئے انٹرویو میں صدرِ مملکت عارف علوی نے کہا کہ میں نے وزیراعظم اور آرمی چیف کو لکھے گئے خطوط میں بھی 9 مئی کے واقعات کی مذمت کی تھی اور کہا تھا کہ دفاعی تنصیبات کو نقصان پہنچانے والوں کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔دریں اثناء تحریک انصاف کے قائد عمران خان نے فوجی تنصیبات پرحملوں کی آزادانہ تحقیقات کرانے کا مطالبہ کرتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے ملک گیر فسادات کو ہوا دینے والی گرفتاری کے بعد اپنی پہلی پریس کانفرنس میں چیئرمین تحریک انصاف نے کہا کہ ان کی کسی کے ساتھ کوئی بات چیت نہیں ہورہی کیونکہ انہوں نے واضح کر دیا تھا کہ بات چیت صرف انتخابات کے معاملے پر ہوگی، اور کچھ نہیں۔ایک سوال کے جواب میں پی ٹی آئی چیئرمین کا کہنا تھا کہ میرا دوسرے فریق(اسٹیبلشمنٹ)سے کوئی تنازع نہیں ہے لیکن مجھے نہیں معلوم کہ وہ مجھ سے کیوں ناراض ہیں۔انہوں نے اپنے الزامات کو دہرایا کہ پی ڈی ایم فوج کی مدد سے پی ٹی آئی کو ختم کرنے کی سازش کر رہی ہے اور کہا کہ یہ اقدام ملک کے لیے خطرناک ہے کیونکہ اس سے وہی حالات پیدا ہو سکتے ہیں جس کے نتیجے میں1971میں پاکستان ٹوٹ گیا تھا، اگر کوئی فوج کے خلاف لڑے گا تو اس سے ملک کو شکست ہوگی۔صدر مملکت کی جانب سے پہلی بار تحریک انصاف کے کسی فعل کے جانبدارانہ دفاع کی بجائے مذمت کرنا اور پارٹی چیئرمین کو بھی اس کی مذمت کاعوامی اور میڈیا پر مشورہ خیالات اور سوچ کی تبدیلی ہے یا پھرایسا کرنا ان کی مجبوری بن گئی تھی اس سے قطع نظر یہ ایک مثبت طرف بالاآخر رجوع ہے صدرمملکت کے عہدے کو جو احترام حاصل ہے وہ غیر جانبداری اور بزرگی کا ہے مملکت کے سربراہ اور کمانڈانچیف جیسے عہدے کا جو تقاضا ہے صدرمملکت اگر قبل ازیں جانبدارانہ کردار کی ادائیگی کی بجائے اپنے وہ فرائض جواز روئے آئین ان کی ذمہ داریوں کا حصہ ہیں جیسا کہ حلف لینا اور ایسے کردار کا مظاہرہ جو قائدانہ اور غیر جانبدارانہ کا متقاضی ہو اس کردار کا مظاہرہ کرنے میں جانبداری نہ برتتے اور سیاسی گرما گرمی کو روکنے اورمعاملات کو ٹھنڈا کرنے کی ذمہ داری نبھاتے تو شاید حالات اس نہج پر نہ آتے ان کی غیر ضروری زمان پارک کا یاترا بھی تحفظات کا باعث بنا نیز پارلیمان سے ان کا آئینی تعلق اور اداروں کے ساتھ احترام کے تعلقات میں بھی کوتاہی کی گئی بدقسمتی سے اعلیٰ عدلیہ کا کردار بھی بوجوہ غیر متنازعہ اور غیر جابندارانہ نہ رہا جبکہ اسٹیبلشمنٹ پر ہر طرف سے غیر جانبداری کا دبائو اور خود ان کی جانب سے محتاط رویہ کے باعث آگ پر پانی ڈالنے کی ذمہ داری نبھانے والا کوئی باقی نہ بچا جس کا نتیجہ آج سب کے سامنے ہے جہاں موجودہ حالات اور خاص طور پر تحریک انصاف کے قائد کی بدعنوانی کے بڑے الزام کے تحت گرفتاری کے بعد کے حالات میں ہنگاموں اور گھیرائو جلائو میں تحریک ا نصاف کے کارکنوں کا کردار و عمل اور اس حوالے سے مختلف قائدین کے ریکارڈ پر موجود ویڈیو پیغامات کی کوئی توجہہ ممکن ہی نہیں لیکن دوسری جانب حکومت کی جانب سے ان مائوں بہنوں اور بیٹیوں تک کو سیاسی معاملات میں گھسیٹ کر گرفتار کرنا جن کے بیٹے شوہر اور بھائی وغیرہ تو سیاست میں ہوں گے لیکن ان کا کسی سیاسی پلیٹ فارم پر کوئی فعال کردار نہ تھا اور نہ ہی وہ ہنگامہ آرائی کے موقع پر موجود تھے ان کو بھی نہ بخشنا سیاسی انتقام کا وہ چہرہ ہے جو گزشتہ دور میں آج کے حکمران ضرور بھگتتے ہوں گے لیکن اس کا انتقام لینا ان کی وہ بڑی غلطی ہے جو انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے اور اخلاقیات میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ایک ایسے وقت جب ہر طرف آگ لگی ہوئی ہے اب جا کر صدر مملکت اور سابق وزیر اعظم کا ان افراد جو ان کی جماعت کے جھنڈے تلے جذبات کا شکار ہوکر مشکل ترین حالات کا شکار ہوئے اس کی مذمت اور ان سے اظہار لاتعلقی کاعمل اگرچہ مصلحت کا تقاضا ہے لیکن بہتر ہوتا کہ ملبہ کارکنوں پر ڈالنے کی بجائے اپنی بھی غلطی کا اعتراف کرکے مفاہمت کی طرف قدم اٹھانے کی سعی کی جاتی۔بہتر ہوگا کہ اسٹیبلشمنٹ کو صفائی دینے اور حالات کا الزام دوسروں کو دینے کی بجائے حالات کو غلطی کو سدھارنے کی طرف لے جایا جائے صرف مذمت اور لاتعلقی کا فی نہیں بلکہ اس کے ازالے کی بھی کوئی صورت نکال لی جائے اور آئندہ اس طرح کے حالات کا سبب بننے سے عملی طور پر گریز کی ضمانت دی جائے اس کے بعد سیاسی معاملات کو سیاسی انداز میں آگے بڑھایا جائے جس کے لئے حکومتی اتحاد اور تحریک انصاف دونوں کو منہ سے شعلے نکالنے کا عمل ترک کرکے ابتداء کرنا ہوگی۔

مزید پڑھیں:  ''ظلم دیکھ کر چپ رہنا بھی ظلم ہے''