عمران خان سے غلطی کیا ہوئی

سابق وزیراعظم عمران خان نے اپنے اس موقف کا پھر اعادہ کیا ہے کہ ایک سازش کے تحت ملک کی سب سے بڑی اور مقبول جماعت کو فوج کے سامنے لاکھڑا کیا گیا ہے۔ کچھ لوگ تحریک انصاف پر پابندی اور مجھے سیاسی عمل سے باہر کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ میرا جینا مرنا اسی ملک میں ہے، ملک چھوڑ کر کہیں نہیں جارہا۔ گزشتہ شب سے جمعرات کی دوپہر تک سوشل میڈیا پر اپنے پیغامات میں سابق وزیراعظم نے کہا کہ پولیس ان کے گھر کا محاصرہ کرچکی ہے ایسا لگتا ہے کہ حکومت مجھے گرفتار کرنا چاہتی ہے۔ پچھلے دو دن میں اپنی جماعت سے الگ ہونے والوں کے بیانات پر تبصرہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھاکہ پی ٹی آئی ایک مضبوط و مقبول عوامی جماعت ہے چند افراد کے جانے سے اسے فرق نہیں پڑے گا جیتے گا وہی جس کے پاس میرا ٹکٹ ہوگا۔ 9مئی کے بعد رونما ہوئے واقعات کو انہوں نے ایجنسیوں کی سازش قرار دیتے ہوئے اپنے گرفتار کارکنوں کی رہائی کا مطالبہ بھی کیا۔ دوسری جانب پنجاب حکومت کا دعوی ہے کہ جلائو گھیرائو کے حالیہ بعض واقعات میں مطلوب افراد زمان پارک میں چھپے ہوئے ہیں۔ سابق وزیراعظم نے گزشتہ شام میڈیا کے نمائندوں اور یوٹیوبرز کو اپنے گھر کے لان میں آنے کی دعوت دی تاکہ وہ دیکھ سکیں کہ پنجاب حکومت کے دعوے کے مطابق کچھ مطلوب لوگ ان کے گھر میں ہیں یا نہیں۔ 9مئی کے بعد رونما ہونے والے افسوسناک واقعات پر دو آرا ممکن ہی نہیں البتہ ان واقعات سے پی ٹی آئی پر بطور جماعت کچھ سوالات اٹھ رہے ہیں ان سوالات کا حتمی جواب یہ بہرطور نہیں ہے کہ سرکاری و نجی اور عسکری املاک پر حملوں اور بلوے میں پی ٹی آئی کے لوگ نہیں ایجنسیوں کے افراد ملوث ہیں کیونکہ جلائو گھیرائو کے ان واقعات اور بہادری کے قصے سناتی پی ٹی آئی کے ہمدردوں اور رہنمائوں کی درجنوں ویڈیوز موجود ہیں۔ حکومت اور متعلقہ ادارے ٹھوس شواہد حاصل ہونے اور ان کی بنیاد پر کارروائی کو آگے بڑھانے کا کہہ رہے ہیں۔ عمران خان کے 9مئی کے بعد کے واقعات کے حوالے سے موقف کو خود ان کی تقاریر اور خصوصا 9مئی کی صبح کے ویڈیو پیغام سے الگ کرکے نہیں دیکھا جاسکتا اس کے باوجود اگر تحقیقاتی کمیشن بنادیا جائے تو انہیں مستقبل میں یہ کہنے کا موقع نہ مل سکے گا کہ ان کے خلاف یکطرفہ کارروائی ہوئی۔ ان کے موقف کو مدنظر نہیں رکھا گیا۔ جہاں تک پی ٹی آئی پر کسی قسم کی پابندی لگائے جانے کا سوال ہے تو اگر یہ معاملہ کہیں زیرغور ہے تو یہ کہنا بہت ضروری ہے کہ اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ ملک میں پہلے ہی درجن بھر جماعتیں کالعدم ہونے کے باوجود نئے نام سے کام کررہی ہیں۔ اسی طرح حالیہ واقعات کے ذمہ دار عناصر کے خلاف ملٹری ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت کارروائی کے عندیہ کا معاملہ ہے۔ گو تحریک انصاف اپنے دور حکومت میں عام شہریوں کے خلاف ملٹری ایکٹ کے تحت مقدمات چلانے کا دفاع کرتی رہی ہے۔ اس کے باوجود اگر حالیہ واقعات میں گرفتار افراد کے خلاف انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں مقدمات چلائے جائیں تو یہ مناسب اس لئے ہوگا کہ مہذب دنیا میں کوئی بھی ملٹری کورٹس سے دی گئی سزائوں کی تائید نہیں کرے گا۔ ثانیا یہ کہ ملٹری کورٹ سے دی گئی سزائوں کی بنا پر معاشرے میں مایوسی پھیلے گی ہمارا نظام انصاف جو پہلے ہی انگنت سوالات سے منہ چھپائے ہوئے نئی صورتحال کا بوجھ نہیں اٹھاپائے گا۔
بلاشبہ 9مئی کے بعد ملک بھر میں جو کچھ ہوا وہ فوری ردعمل بہرحال نہیں تھا پرتشدد مظاہرین نے جس منظم انداز میں کارروائیاں کیں اس سے صاف ظاہر ہوتاہے کہ یہ پہلے سے طے شدہ منصوبے کے مطابق تھیں۔ افسوس یہ ہے کہ عمران خان نہ تو خوداحتسابی پر آمادہ ہیں اور نہ اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ انہوں نے پچھلے ایک سال میں نفرت کے غباروں میں جو ہوا بھری ان کے پھٹنے سے پراگندگی پھیلی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ان افسوسناک واقعات کے ذمہ داران کو کیفر کردار تک پہنچانے کی بجائے یہ کہہ کر آگے نہیں بڑھا جاسکتا کہ چلیں بچوں نے جذبات میں غلطی کردی۔ کیونکہ یہ وقتی جذبات میں ہوئی غلطی ہرگز نہیں بلکہ سے طے شدہ منصوبے پر عمل ہوا۔ ہماری دانست میں بعض حلقوں کی یہ رائے درست ہے کہ حالیہ واقعات میں ملوث افغان شہریوں کے خلاف ملٹری ایکٹ کے مطابق کارروائی کرلی جائے باقی عام شہریوں کے خلاف ملکی قوانین کے مطابق کارروائی کو آگے بڑھایا جائے تاکہ ایک خالص انصاف کے معاملے کو کوئی مذموم پروپیگنڈے کے لئے استعمال نہ کرنے پائے۔ جہاں تک عمران خان کے اس الزام کا تعلق ہے کہ ان کی پارٹی کو توڑنے کی حکمت عملی پر کام شروع ہوگیا ہے تو اس الزام کو یکسر رد کردینا اس لئے ممکن نہیں کہ جس طرح کے شبہات پی ٹی آئی کی اکتوبر 2011 کی نشاط ثانیہ کے وقت تھے ویسے اب بھی ہیں۔ راتوں رات کایہ کلپ کیسے ہوتی ہے یہ امر کسی سے مخفی نہیں افسوس کہ اس جماعت کی تعمیر نو بھی ایسے ہی ہوئی تھی تب عمران خان کہا کرتے تھے کہ آج میں نے دشمنوں کی اتنی وکٹیں گرادی ہیں۔ اب وہ ریاستی مکموں کو دوش دے رہے ہیں کہ ان کی جماعت کے لوگوں پر پارٹی چھوڑنے کے لئے دبائو ڈالا جارہا ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ گھمبیر سیاسی حالات معاشی ابتری، مہنگائی اور دوسرے مسائل کا بوجھ ہر کس و ناکس کو اٹھانا پڑرہا ہے۔ اس بدحالی سے عبارت دنوں میں احتجاج کے نام پر جلائو گھیرائو، تشدد اور فتح کے نعروں نے جو صورتحال پیدا کردی ہے اس سے انکھیں نہیں چرائی جاسکتیں۔ حالیہ افسوسناک واقعات کے ذمہ داروں کے حوالے سے ٹھوس شواہد کی موجودگی کے باوجود عمران خان کا یہ دعوی کہ یہ میرے کارکنوں نے نہیں ایجنسیوں کے ایجنٹوں نے کیا ہے، پر نرم سے نرم الفاظ میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ انہیں صورتحال کی سنگینی کا کامل ادراک نہیں ہے یا پھر وہ اس موقع پر بھی ایک طرح کا دبائو بڑھاکر اپنا دامن بچانا چاہتے ہیں جبکہ گرفتاری سے قبل وہ جس طرح کی باتیں اور تقاریر کرتے رہے ان کی روشنی میں انہیں صورتحال کی ذمہ داری قبول کرنی چاہیے تھی۔ مروجہ سیاست کا دیرینہ المیہ یہی ہے کہ ہر پارٹی خود کو حرف آخر اور ناگزیر سمجھتی ہے گو یہ وقت ماضی کے حوالے سے طعنے بازیوں کا نہیں پھر بھی اس امر کی جانب توجہ دلانا ازحد ضروری ہے کہ سیاسی نظام میں موجود جماعتوں کو توڑپھوڑ کر نئی جماعت بنوانے کے آج تک جتنے بھی تجربے ہوئے اس سے ملک، نظام اور جمہوریت کی کوئی خدمت نہیں ہوئی۔ تحریک انصاف والا تجربہ ایسا داغ اور گھائو دے گیا ہے کہ داغ دھلتے برسوں اور گھائو بھرتے عشرے لگیں گے۔ نفرت پر کھڑی کی گئی جماعت نے لگ بھگ بارہ برس سے اوپر جو ادہم مچایا اس کے فیض سے اس کے خالقین بھی محروم نہیں رہے۔ اس کے باوجود ہم سمجھتے ہیں کہ تحریک انصاف کو مصنوعی طورپر تحلیل کرنے میں کسی کو حصہ نہیں ڈالنا چاہیے۔ سیاسی جماعتوں نے جمہوری شعور کا مظاہرہ کیا تو یہ یا کوئی بھی نفرتوں کی سیاست کرنے والی جماعت اپنے کرموں کے پھل کے بوجھ تلے دب جائے گی مگر غیرسیاسی طریقہ اپنانے سے مسائل بڑھیں گے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ ارباب سیاست اورپالیسی ساز ان معروضات پر غور ضرور کریں گے تاکہ بعد میں کسی بات کا ملال نہ ہو۔

مزید پڑھیں:  بجلی کے سمارٹ میٹرز کی تنصیب