اتنا سچ بول کہ ہونٹو ں کا تبسم نہ بجھے

ملک بھر میں 9مئی کو جوبلو ہو ا کیا اس سے آنکھیں چرائی جا سکتی ہیں اس بلو یٰ کے پس منظر کیا تھا اس کے پشت بان کون تھے ، اور کیا سلسلہ آشیر با د ہنو ز جاری ساری ہے ، کیا پی ٹی آئی کے سبھی بلونت ہیں کہ ہر جھنجٹ سے ماوراء مقام رکھتے ہیں یہ ایسے سوال ہیں کہ جن کا جو اب حکومت یا اس بارے میںکر دار اداکرنے والے اداروں کو دینا ہے ، یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ حکومت کر نے کا حق اسی قوت کو ہوتاہے جو قانون کی بالادستی قائم رکھ سکے اورامن واما ن کی ذمہ داری نبھائے ویسے ہر شہر ی کے فرائض میں یہ شامل ہے کہ وہ قانون کی خود بھی پاس داری کرے لیکن گزشتہ ایک سال سے جو ہو رہاہے وہ دکھ کے لمحات کی تیر گی کو گہرا ہی کر تا جا رہا ہے ، کیا ملک کے استحکا م کو متزلزل کرنے والے اتنے بلونت ہیں کہ امید و بیم کے منجدھار میں ملک پھنسا رکھا ہے ، امریکا سے بار بار یہ خبر آرہی ہے کہ وہاں کہ سینٹر پاکستان کے بارے میں اپنی سی رپو رٹ اپنے ہی حکا م کو دے رہے ہیں ، جب حقوق کی پائمالی گزشتہ دور میںجا ری تھی تب کوئی شنوائی امر یکی حلقوں سے نہیں آرہی اب ہے کہ ایک تسلسل سے رواں ہے ، تازہ خبر ہے کہ چالیس سے زیادہ امریکی سینٹر ز نے اپنے وزیرخارجہ کو لکھ بھیجا ہے کہ پاکستان میں انسانی حقوق کی خلا ف ورزی ہورہی ہے ، کیا اس سے پہلے پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیا ں نہیں ہوئیں جو اب ان کے کانوں میںجوئیں رینگنے لگی ہیں ، یہ ہی نہیں صدر عارف علو ی صاحب کے بارے میں بھی سوشل میڈیا پر اطلا ع ملی ہے کہ انھوں نے بھی اڈیالہ جیل کا چکر لگانے کی خواہش فرمائی تھی ، لیکن گردو ں کی گردش میںحالات کی بناء پر ان کو جیل کی طرف جانے سے روک دیا گیا ، وہ کس لیے جاناچاہتے تھے ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ جیل کا
معائنہ کرنے دوران یہ جاننا چاہتے تھے کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی تو نہیں کی جا رہی ہے ، عارف علوی صاحب کو ملک کا اہم ترین عہد ہ جلیلہ کا حلف اٹھائے چار سال کا عرصہ ہو چلا ہے اب ان کو گمان ہورہا ہے کہ یہ سراغ لگایا جائے کہ انسانی حقوق روبہ عمل استحکا م سے ہیںیا نہیں ، اب تو ریٹائر ڈ اعلیٰ فوجی افسرو ں کی جانب سے بھی حقوق کی بات میں بڑی شدت پیدا ہو گئی ہے ، ریٹائر ڈ فوجی افسروں کی ایک تنظیم ہے اس کو کوئی نا تا براہ راست فوج سے نہیں جڑا ہو ا نہیں ہے ، اب سے پہلے وہ ایک ریٹائر ڈ اعلیٰ فوجی افسرو ں کا ایک قسم کا کلب تھا جس کے ذریعے یہ سابق افسر جڑے اپنے ماضی کی شاندار شان کی یا دوں کو تارہ کیے رکھتے تھے تاہم کچھ عرصہ سے ان میں سیا سی نمو پائی گئی ، جس پر کئی حلقوں کو تشویش ہوئی اور یہ محسو س کیاجانے لگا کہ اگر اب ان میںسیا ست کا شوق چرا گیا ہے تو چاہیے یہ کہ وہ سیاسی جماعت بنا لیں فوج جیسے معتبر جیسے ادارے کے نا م کو سیاست میں گھیسٹنے سے ادارے کے لیے منفی اثرات پڑیں گے ، بہرحال ان سابق افسروں کی جانب سے خود کے حقوق کے تحفظ کے ذکر کے ساتھ پریس ریلز جاری ہوئی ہے وہ دراصل اپنے سابق ادارے کے لیے تنبیہہ قرار پاتی ہے ، جب کہ چیف آف آرمی اسٹاف نے بلوائیو ں کے کر تو ت پر جو ردعمل اختیا ر کیا ہے یہ ان کے فرائض میں شامل ہے اس سے ہٹ کرکوئی نیا راستہ اختیا ر نہیں کیا جا سکتا تھا ، امید وبیم بھی یہ تھی کہ ملک کی سلا متی اور ملک کے لیے باعث عظمت تنصیبات پر حملے کی مذمت کر تا اور کھل کر اپنے اس ادارے کے وقار و ساکھ لیے سینہ سپر ہو کر کھڑا ہوجا تا ، اسی کی بجائے یہ دیکھنے میں یا کہ ایسے حقوق کی پائمالی کا حوالہ دیا جا رہا ہے جو پائمال ہوئے نہیں کیا پریس ریلز جا ری کر نے والے یہ وضاحت کر سکتے ہیں کہ ملک کی دفاعی و حساس تنصیبات پرحملہ آور ملک دشمن ہو نے کے زمرے میں آتے ہیں یا نہیں ۔ ایم ایم عالم کا تاریخی طیا رہ ، شیر خان نشان حیدر کا مجسمہ کا ماڈل ، یہ چاغی کے پہاڑ کا ماڈل پاکستان کے دفاع کی عظمت ہیںیا نہیں ا ن کوتباہ کر نے والے محب وطن قرار پاتے ہیں ایک جناح ہاؤس کا معاملہ نہیں ہے وہ گھر یقینی طور پر اس لیے بھی تقدس کا حق دار ہے کہ بابائے قوم کے نا م سے جڑا ہو ا ہے ، لیکن اس کی عظمت ایک یہ بھی ہے کہ وہ پاکستان کے دفاع کے سالار کی رہائش گاہ بھی ہے ، اس پر حملہ کوئی احتجا ج کی علا مت قرار ہر گز نہیں پاسکتا بلکہ وہ پاکستان کے دفاع کی علا مت کو ڈھانے کی مذموم کا وش قرار پاتا ہے ، پریس ریلز ایسے وقت جاری کی گئی جب سابق وزیر خزانہ سلمان شاہ کی بیٹی کے بارے میں اطلاع آئی کہ وہ گرفتاری سے بچنے کے لیے چھپ گئی ہیں ، سلما ن شاہ سابق آرمی چیف جنرل (ر) آصف جنجوعہ کی نواسی ہیں ۔ ان کی تلاش جاری ہے ، پریس ریلز سے ظاہر ہو رہا ہے کہ حکومت غیر قانونی اقدام کا ارتکا ب کر رہی ہے ، ماضی قریب میں بھی سابقہ حکومتوںپر بھی ایسے الزامات عائد ہو تے
رہے ہیں کہ وہ انتقامی کا رووائیوں میں مصروف ہے اور مخالفین کو جھوٹے مقدما ت میں گرفتار اور ملو ث کیاجارہا ہے ، لیکن ان الزاما ت کے باوجود اس وقت کی اپو زیشن نے کسی بھی طور ملک کے دفاع پر حملہ آور ہونے کی کو شش نہیں کی ، خان عبدالولی خان نے ایسے ہی انتقامی کا رووائیو ںکا نشانہ بن کر پندرہ سال سے زیادہ جیل کا ٹی لیکن انھو ں نے عملاًیا زبانی طور پر کوئی ایسا کام نہیںکیا جو ملک دشمنی پر مبنی ہو یہ ہی نہیں ان کے والد محترم باچاخان نے 37سال سے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں لیکن انھو ں نے اپنی سیا سی جدوجہد ہمیشہ پر امن رکھی حتٰی کہ بھٹو مر حوم کے دور میں جب بلوچستان میں ان کی مخلو ط حکومت ختم کردی گئی اور کے پی کے صوبے میں ان کے گورنر مرحوم ارباب سکندر خلیل کو برطرف کردیا گیا جس کے خلا ف ولی خان کی پارٹی احتجا جی تحریک چلا رہی تھی اس دوران باچاخان کی پیر و کا ر طلباء تنظیم نے پشاور کے ایک ٹرسٹ کے اخبار پر ہلا بول دیاکیوں کہ سرکا ر کی معیت میں شائع ہو نے والا یہ اخبار جھوٹ پر مبنی باچا خان اور ان کی پارٹی کے خلا ف مہم جوئی میںمصروف تھا ، طلباء کے اخبار کے دفتر پر ہلّہ بولنے کی اطلا ع ملتے ہی باچا خان نے اس ہلّہ بازی کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور واضح کیا کہ ان کی سیاسی جد وجہد پر امن ہے آشتی کے لیے ہے وہ ہر قسم کے تشد د کے مخالف ہیں اور اس کی مزمت کر تے ہیں کالعدم نیپ کی تحریک جنرل ضیاء الحق کے آنے تک پر امن ہی رہی ، باچا خان عدم تشدد کے پر چارک تھے چنا نچہ انھوں نے اخبارکے دفتر پر ہلّہ بولنے والو ں کی مذمت میں لمحہ بھر بھی تاخیر نہ برتی اور نہ کسی دباؤ میں آکر مذمت کی ، نہ شروع میں اِ دھر اُدھرکی پھینکی ۔

مزید پڑھیں:  ''چائے کی پیالی کا طوفان ''