ذرا سوچئے

ملک کس سمت جا رہا ہے کچھ سمجھ نہیں آتا، ٹی وی کھولنا مشکل ہوگیا ہے جیسے ہی یہ جسارت کروں، اونچی اونچی آوازوں میں اپنی اپنی بولیاں بولتے لوگ گھر کے اندر گھس آتے ہیں نہ ہی کوئی شائستہ لہجے میں بات کرتا ہے نہ ہی تہذیب باقی رہی ہے، کسی بھی بات کو کوئی بھی رنگ دے دینا اور ہر ایک معاملے کو سیاسی جامہ پہنا دینا ہی کوئی مشکل بات نہیں، ملک میں مہنگائی ہے اور آج بھی کسی کے پاس کوئی حل نہیں کوئی، لائحہ عمل نہیں اور سب آپس میں لڑ رہے ہیں، سیاست دان آپس میں لڑ رہے ہیں اور لڑتے لڑتے عدالتوں کے آنگن میں آ دھمکتے ہیں، انصاف کی دہائیاں دیتے ہیں لیکن انصاف چاہتے نہیں، عدالتیں کیا کر رہی ہیں کسی کو کوئی سرا پکڑائی نہیں دیتا اور پھر اسی لڑائی میں ملک کے محافظوں پر ہل پل پڑے ہیں۔ یہ بات نئی نہیں میاں نواز شریف بھی یہی کرتے رہے ہیں، ان سے پہلے ذوالفقار علی بھٹو نے بھی یہی کیا تھا، اب عمران خان بھی یہی کررہے ہیں، یہ لڑائی طاقت کی لڑائی ہے اور اس کے رویئے انتہائی افسوسناک ہیں، ان رویوں میں اس ملک کے عوام بری طرح پٹ رہے ہیں یہ ایسا ہی ہے کہ ایک پریشان گھر میں جہاں ماں باپ آپس میں لڑ رہے ہوں سب سے بری طرح اس گھر کے بچے متاثر ہوتے ہیں، ہماری کیفیت بھی اس سے کچھ مختلف نہیں وہ جو اس وقت ملک کو عمران خان کے بگاڑ کے بعد سنبھالنے کے دعویدار بنے بیٹھے ہیں، ان کی اس ملک میں جڑیں ہی باقی نہیں، ان کے کاروبار پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں اور ان کی اگلی نسل پاکستان واپس لوٹنے کو تیار نہیں، میاں نواز شریف کی صاحبزادی سیاست میں موجود ہیں ان کی سیاسی بصیرت اور حب الوطی کا اندازہ لگانے کیلئے آئن سٹائن ہونے کی ضرورت نہیں، میاں شہباز شریف تو وزیراعظم ہوکر بھی اپنا ایسا سیاسی قد نہیں بنا سکے کہ مخالفین کیلئے مقابلہ محسوس ہوں بڑے بھائی سے ان کے حالات بھی مختلف نہیں۔
پیپلز پارٹی میں آصف زرداری صاحب نے بلاول بھٹو کی صورت میں اپنا سیاسی امکان میدان میں اتار دیا ہے۔ چونکہ بلاول بھٹو کی عمر اور بصیرت کے باعث لوگ ان سے بہت کم امید رکھتے ہیں اس لئے ان کی چھوٹی کارکرگی بھی حیران کن لگتی ہے اور اس کا اثر زیادہ ہے کیونکہ ان سے کوئی امید ہی نہیں پھر اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ان کی تربیت اور سیاسی موجودگی کے حوالے سے مسلسل جدوجہدکی جا رہی ہے، یہ الگ بات ہے کہ وہ لوگ جو کبھی پیپلز پارٹی کے سر کے تاج ہوا کرتے تھے جو بلاول کی والدہ کے مستقل ساتھی تھے اور جس میں سے کئی ابھی تک موجود ہیں وہ اب ایسی سیاست میں دلچسپی لیتے دکھائی نہیں دیتے، مسلم لیگ (ن) میں بھی کئی رہنماء ایسے ہیں جو موروثی سیاست کے منفی اثرات کو اب اپنے اعصاب پر محسوس کرتے ہیں اور سیاست سے بیزار دکھائی دیتے ہیں، پیپلز پارٹی کی قیادت میں بھی اس ملک سے محبت کی کوئی جذباتیت دکھائی نہیں دیتی، آف شور کمپنیوں اور بیرون ملک اثاثوں کی اس جانب بھی کمی نہیں اور اب ان کے ساتھ بھی وہ لوگ نظر آتے ہیں جو سطحی سیاست اور درون خانہ اپنی مرضی کے کاروبار کی شہرت کے حامل ہیں، دروازوں پر زنجیر عدم لٹکانے سے کوئی عادل نہیں تسلیم کیا جاتا، ہاں اس کے اندر بادشاہت کی کتنی خواہش ہے یہ ضرور دکھائی دے جاتا ہے۔
جناب عمران خان کے ساتھ اس ملک نے بڑی امیدیں وابستہ کیں لیکن سوائے کف افسوس ملنے کے کچھ حاصل نہ ہوا، عمران خان کی ضد نے خود انہیں ہی ایسے مقام لاکھڑا کیا ہے جہاں اب انہیں آگے بڑھنے کا راستہ شاید واضح دکھائی نہ دیتا ہوگا، ایک ایسا شخص جس پر یہ قوم آنکھیں بند کرکے یقین کرسکتی تھی کہ وہ اس ملک کا انتہائی وفادار ہے اور امانت دار ہے، اس نے اپنی ضد سے اس ملک کے لوگوں کی امید بھی توڑ دی، جیتنے والوں کے ہاتھ تھام کر عمران خان صاحب نے حکومت بنالی تھی ان کی غلطی یہ ہے کہ سورج مکھی قبیلے پر انہوں نے یقین کرلیا، یہ سمجھا کہ یہ جو کہہ رہے ہیں سچ کہتے ہیں کیونکہ خود انہیں جھوٹ بولنے کی عادت نہیں لیکن وہ جو پہلے ہی گھاٹ گھاٹ کا پانی پئے ہوئے ہوں ان سے یہ امید رکھنا کہ وہ ہر بات ہی سچ کہتے ہوں گے۔ جب مصیبت آئے گی تو نظریاتی بھی ثابت ہونگے، وہ لوگ جو نظریات کی چکی میں پس کر سیاست کے منظرنامے پر طلوع نہ ہوئے ہوں ان کے لئے کبھی بھی مفادات سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ہوتی، اسی لئے مشکل وقت میں عمران خان صاحب کو ان کے چہروں کے رنگ اور ہاتھوں کے طوطے اڑے ہوئے نظر آتے ہیں اور وہ لوگ خود بھی اڑنے کی تیاریاں کررہے ہیں کچھ اڑ چکے ہیں اور کچھ سمجھ نہیں پا رہے کہ یہاں سے اڑے تو کس شاخ پر جاکر بیٹھیں گے۔
ایسے میں نقصان تو صرف اس ملک کا ہے اس ملک کے لوگوں کا ہے جن کے پاس اب امید بھی باقی نہیں رہی ایک ایسا ملک جہاں مہنگائی اب عفریت بن چکی ہے ایسا عفریت کہ کب خانہ جنگی کا روپ دھار لے کچھ معلوم نہیں ہوتا ایک ایسا ملک جہاں روزبروز زندگی بوجھل سے بوجھل تر ہوتی جا رہی ہے، ہم سوچتے تھے کہ مشکلات کا مقابلہ کرنے سے ہمارے ملک کے لوگوں میں مصیبت ہنستے مسکراتے جھیل لینے کی خصوصیت پیدا ہوگئی ہے، ادھر تو حالت ہی الگ ہے لوگ یقین اور امید دونوں ہی کھو چکے ہیں، اب صرف غصہ باقی ہے اور غصہ کبھی بھی لوگوں کو ہمت کرکے حالات کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار نہیں کرتا یہ تباہ کرتا ہے۔ نو مئی کو بھی غصہ تھا، غصہ کبھی منطق سے فیصلہ نہیں کرتا وہ صرف غصہ ہوتا ہے ایک انتہائی منفی تباہ کر دینے والا جذبہ، یہ غصہ روز بڑھ رہا ہے، اسے ڈھالنے کی ضرورت ہے تھوڑی تھپکی کے ساتھ سر سہلا کر اس طاقت کو اپنے مفاد میں اس ملک کے مفاد میں استعمال کرنے کی ضرورت ہے، لوگوں کو کام پر لگایئے، ردعمل کبھی سودمند ثابت نہیں ہوتا اور اس سے کبھی کسی بات کا بھی سدباب نہیں ہوتا۔ ذرا سوچئے۔

مزید پڑھیں:  ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی حکمرانی