آڈیو لیکس

سبحان اللہ بلکہ ماشاء اللہ

معاشرہ ذہنی افلاس اور پستی کے جس سفر پر گامزن ہے اس کا انجام کیا ہوگا؟ ملک میں تعلیمی معیار کی جو صورتحال ہے اس کی وجہ سے عالمی سطح پر پاکستان کی کتنی یونیورسٹیاں دوسرے ممالک کی یونیورسٹیوں کے مقابلے میں گراف کے حوالے سے کس مقام پر ہیں اس پر ہمیں من حیث القوم سوچنا بھی چاہئے اور اپنی یونیورسٹیوں کی اس بے قدری کا علاج بھی کرناچاہئے، ہمارے ہاں تعلیم کا جو معیار ہے اس پر کئی طرح کے سوال اٹھ سکتے ہیں لیکن امتحانات میں نقل کرکے ناجائز حربوں سے امتحانات پاس کرنے سے تعلیمی نظام کی جو شکل بن رہی ہے وہ یقیناً لمحہ فکریہ ہے، اس حوالے سے تازہ ترین خبر بہت ہی افسوسناک ہے، بنوں کے علاقے ڈومیل سے ملنے والی یہ خبر باعث شرم بھی ہے کہ وہاں میٹرک کے امتحانات میں نقل کی اجازت نہ ملنے پر طلباء نے ہنگامہ آرائی کی، سڑکوں پر نکل کر توڑپھوڑ کرتے ہوئے پرچے بھی پھاڑے اور بازار کو ہنگامہ آرائی کی نذر کرکے ٹریفک کو بھی بند کردیا جبکہ دیگر سکولوں تک اس صورتحال کو پہنچا کر درخت اکھاڑے، پولیس وین پر پتھرائو کیا، اس صورتحال کی ذمہ داری کس پر عائد کی جائے ان والدین پر جو اپنے بچوں کو اخلاق کا درس دینے میں ناکام ہیں یا ان اساتذہ پر جن میں یہ صلاحیت ہی نہیں کہ وہ طلباء میں علم کے حوالے مثبت رویہ اجاگر کرنے میں کامیاب ہو سکیں اور ایزی کم ایزی گو کا رویہ اختیار کرتے ہوئے صرف نقل کرنے سے ہی امتحانات کا ”اچھا رزلٹ” حاصل کرنے کا باعث ہیں یا وہ طلباء جو پڑھنے میں تو دلچسپی نہیں لیتے اور امتحانات کے دنوں میں گائیڈ بکس یا بعض ماہرین کے مرتب کئے ہوئے گیس پیپرز سے استفادہ کرنے ہی میں بہتر مستقبل تلاش کرتے ہیں، اگر والدین اپنے بچوں کیلئے امتحانات کے دنوں میں ”بوٹی مافیا” کی مدد لینے سے ہاتھ کھینچ لیں، اساتذہ دل و جان سے طلبہ کو پڑھانے اور ان میں تحقیق کا مادہ بیدار کرنے میں دلچسپی لیں تو نہ نقل کر کے پاس ہونے کی سوچ طلباء میں پنپ سکتی ہے اور نہ ہی مشکل پرچہ سامنے آنے پر اس قسم کی صورتحال جنم لے سکتی ہے، یہ ہم سب کا مشترکہ مسئلہ ہے اور ہم نے من حیث القوم اس کا حل ڈھونڈنا ہے۔

مزید پڑھیں:  دہشت گردی میں اضافہ