آڈیو لیکس

آڈیو لیکس جوڈیشل کمیشن کا قیام

آڈیو لیکس کے معاملے پر وفاقی حکومت نے 3 رکنی جوڈیشل کمیشن تشکل دے دیا ہے جس کی سربراہی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کریں گے جبکہ بلوچستان اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس صاحبان کمیشن کے ممبر ہوںگے، تحقیقاتی کمیشن 30 روز میں وفاق کو رپورٹ پیش کرے گا، وفاقی وزیرداخلہ رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ الزامات ثابت ہوئے تو معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل میں جائے گا، سابق وزیراعظم اور تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے آڈیو لیکس کے تحقیقاتی کمیشن پر سوشل میڈیا کے ایپ ٹویٹر پر اپنے پیغام میںکہا کہ وفاقی حکومت نے آڈیو لیکس کے معاملے کی تحقیقات کیلئے کمیشن آف انکوائری ایکٹ 1017 کے سیکشن 3 کے تحت انکوائری کمیشن تشکیل دیا ہے، انہوں نے کہا کہ وہ اس معاملے کو ذہن میں رکھنے میں ناکام ہیں کہ وزیراعظم کے دفتر اور سپریم کورٹ کے موجودہ ججوں کی غیر قانونی اور غیر آئینی نگرانی کے پیچھے کون ہے، کمیشن کو اس بات کی تحقیقات کرنے کا اختیار دیا جانا چاہئے کہ یہ طاقتور اور نامعلوم عناصر کون ہیں جو اعلیٰ عوامی عہدیداروں سمیت شہریوں کی ٹیلی فونک گفتگو کو ریکارڈ کرتے ہیں۔ امر واقعہ یہ ہے کہ گزشتہ چند ماہ سے آڈیو اور ویڈیو لیکس نے ملکی سیاست اور سماجی زندگی میں تہلکہ مچا رکھاہے، جہاں تک آڈیوز یا ویڈیوز کی بقول عمران خان غیر آئینی اور غیر قانونی ریکارڈنگ کا تعلق ہے تو اپنے اقتدار کے دنوں میں ان کا ایک بیان ریکارڈ پر ہے کہ اگر ملکی مفادات کے تحت ”ایجنسیاں” میری گفتگو بھی ریکارڈ کریں تو اس میں کیا قباحت ہے، صورتحال یہاں تک پہنچی کہ جب تحریک انصاف کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد پی ڈی ایم برسر اقتدار آئی اور مبینہ طور پر ایک سابق سربراہ آئی ایس آئی اور ریٹائرڈ کورکمانڈر کی ایماء پر وزیراعظم شہباز شریف کے دفتر کی ریکارڈنگ کی گئی اور یہ معاملہ طشت ازبام ہوا تو اس وقت عمران خان نے اس پر کسی تشویش کا اظہار کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جبکہ قبل ازیں عمران خان نے مبینہ طور پر سابق سربراہ نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال کو ایک ویڈیو کے ذریعے بلیک میل کرکے جس طرح اپنے مخالفین کو بلاجواز قید میں ڈالا اور بعض (خواتین و حضرات) کی جیل کوٹھڑیوں میں ٹی وی کیمر ے نصب کروائے (مقصد صاف ظاہر ہے) اسے تو وہ جائز سمجھتے تھے مگر اب جبکہ ان کو مبینہ سہولتیں فراہم کرنے کے حوالے سے عدلیہ کے اہم کردار بے نقاب ہو رہے ہیں اور تازہ ترین معاملات 9 مئی کے حوالے سے ان کی جماعت پر لگنے والے الزامات کے مبینہ ثبوت بھی ان آڈیو لیکس سے سامنے آرہے ہیں توان کو اب یہ سب کچھ غیر آئینی بھی لگ رہا ہے اور غیر قانونی بھی جبکہ پوری دنیا میں ان ممالک کی ایجنسیاں اپنے ملک کے خلاف کسی بھی قسم کی سازشوں میں ملوث بیرونی یا اندرونی ہاتھوں کو بے نقاب کرنے کیلئے جدید آلات سے ریکارڈنگ کرکے یا دیگر ذرائع سے حساس معاملات حاصل کر کے سازشوں کو بے نقاب کرتی ہیں اس ضمن میں تازہ ترین آڈیو لیک خود عمران خان کی امریکی کانگریس کی خاتون رکن میکسین مورواٹرز کے ساتھ وہ گفتگو ہے جس میں عمران خان ان سے اپنے حق میں آواز اٹھانے کی درخواست کر رہے ہیں کیا یہ ملکی معاملات میں بیرونی مداخلت کروانے کی ”غیر اخلاقی، غیر قانونی اور غیر آئینی” کوشش نہیں ہے جبکہ اس سے پہلے عمران خان اپنی حکومت گرانے کی سازش کا الزام امریکہ پر عائد نہیں کرتے رہے ہیں جو تب بھی جھوٹ کا پلندہ تھا، یہی وجہ ہے کہ اس کے بعد عمران خان نے پینترہ بدلتے ہوئے اپنی حکومت گرانے کا ا لزام سابق آرمی چیف جنرل باجوڑہ پر لگایا، مزید یہ کہ جن آڈیو لیکس کی انکوائری مطلوب ہے اور جس کیلئے حکومت نے تین رکنی تحقیقاتی کمیشن تشکیل دے کر اس حوالے سے نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا ہے اب سارا معاملہ محولہ کمیشن کے احاطہ اختیار میں ہے جو یقیناً معاملات کے تمام پہلوئوں کا جائزہ لے کر 30 دن کے اندر رپورٹ حکومت کے حوالے کرے گا اور بقول رانا ثناء اللہ اگر کمیشن کے دائرہ اختیار کے مطابق الزامات ثابت ہوں گے تو اس کے بعد اسے سپریم جوڈیشل کونسل کے پاس بھیجا جائے گا اس لئے کونسل پر اعتراضات اٹھاکر بلاوجہ تحقیقاتی عمل پر اثرانداز ہونے کی کوشش نہ کی جائے، صرف ایک ماہ کی توبات ہے اس کے بعد جب تحقیقات کے نتائج سامنے آجائیں گے تو صرف عمران خان ہی نہیں ہر شخص کو ان تحقیقات کے نتائج پر مقدور بھر سوال اٹھانے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔ مزیدیہ کہ عدالت کا دروازہ بھی کھلا ہوگا اور الزامات کی زد میں آنے والے ملزموں کو بھی عدالت سے رجوع کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی، امید ہے تمام سیاسی رہنماء اعلیٰ عدالتی کمیشن کی انکوائری مکمل ہونے تک انتظار کی زحمت کریں گے۔

مزید پڑھیں:  امریکی پابندی کا استرداد