آتے ہیں نظر آپ بھی کچھ راہنما سے

جن دنوں بھارتی ٹی وی چینلز کے پروگرام پاکستان میں نظر آتے تھے ان دنوں ایک بھارتی سینیٹری سامان بنانے والی کمپنی کا ایک اشتہار بہت زیادہ چلتا تھا ، جس میں ایک گھر میں مشہور بھارتی ایکٹر بومن ایرانی اپنے دو اور ساتھیوں کے ساتھ ایک گھر میں چوری کرنے آتا ہے اور وہ وہاں غسلخانوں اور کچن میں لگے ہوئے سینیٹری کا سامان (ٹونٹیاں ، شاور وغیرہ )کھول کر چوری کرتا ہے تاہم کھانسی اور زکام کی وجہ سے اس کا گلا خراب ہوتا ہے’ اور وہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد گلاکھنکار کر صاف کرتا ہے تو گھر کی مالکن کی آنکھ کھل جاتی ہے اور وہ آکر بومن ایرانی کو کھانسی کی دوا دیتے ہوئے کہتی ہے لے لو بیٹا، دوا پی لو وہ دوائی پیتا ہے تو اس کا گلا ٹھیک ہو جاتا ہے اوروہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ چوری کا ساراسامان وہیں چھوڑ کر واپس جاتا ہے۔ ساتھی چور اس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہیں تو وہ نہایت عاجزی اور احسان مندی سے صرف اتنا کہتا ہے”ماں”۔بومن ایرانی کو ماں ملنے کا فائدہ اس کے خراب گلے کے علاج کی صورت مل جاتا ہے جبکہ اشتہار میں شامل ماں کو اپنے گھر سے چرائی ہوئی اشیاء واپس مل جاتی ہیں’ ان دنوں سوشل میڈیا پر ایک اور ماں کا تبصرہ بھی وائرل ہے’ جو اپنے گھر میں آتے ہوئے چور کی وہاں سے سامان اکٹھا کرتے ہوئے کھٹ پٹ کی آواز میں پیدا ہونے سے جاگ کر چور کو اپنی طرف بلاتی ہے اور کہتی ہے لے جائو بیٹا جو بھی تیرا دل کرے مگر جانے سے پہلے ادھر آکر میرے پاس بیٹھ جائو’میں نے ایک خواب دیکھا ہے ذرا اس کی تغیر تو بتا دو’ چور اس ماں کے پاس آکر بیٹھ جاتا ہے اور ہمہ تن گوش ہو کر اس کا دیکھا ہوا خواب سنتا ہے’ بوڑھی اماں اسے کہتی ہے میں نے ابھی ابھی ایک خواب دیکھتا ہے کہ ۔۔۔اور خواب سناتے ہوئے زور زور سے ایک شخص کا نام اونچی آواز میں دو تین بارلیتی ہے اور کہتی ہے کہ اب بتائو اس کا مطلب کیا ہوا ‘ چور سوچ میںپڑجاتا ہے، ادھر دوسرے کمرے میں بوڑھی اماں کا جو ان گھبرو بیٹا اپنا نام سن کر جاگ جاتا ہے اور چارکی وہ ٹھکائی کرتا ہے کہ اسے چھٹی کا دودھ یاد آجاتا ہے اور وہ سوچتا ہے کہ میں یہ بات کیوں بھول گیا کہ میں چور ہوں کوئی خوابوں کا تعبیر بتانے والا نہیں
اپنے یوسف کو زلیخا کی طرح تم بھی کبھی
کچھ حسینوں سے ملا دو تو مزہ آجائے
بے چارے چور کو کیا خبرتھی کہ اس کا واسطہ زلیخا کی سہیلیوں سے نہیں بوڑھی اماں کے ہٹے کٹے جوان بیٹے سے پڑنے والا ہے اس لئے ”ماں” کی باتوں میں آکر اپنی مرمت کروا بیٹھا۔ممکن ہے کہ چور اگر اس کے بعد بھی چوری سے تائب نہیں ہوا تو ایسے مواقع پر وہ بقول شاعریہ ضرور سوچنا ہو گا
ڈر ہے کہ مجھے آپ بھی گمراہ کریں گے
آتے ہیں نظر آپ بھی کچھ راہنما سے
خیر یہ تو دو چوروں کی الگ الگ داستانیں تھیں جبکہ اب ایک مبینہ”راہنما” چور کی بات بھی سن لیجئے جو تازہ خبر کی صورت سامنے آئی ہے اور اس کا موازانہ اوپر درج پہلی کہانی یعنی بھارتی ٹی وی پر چلنے والے سینیٹری کے اشتہار فلم میں ڈالی جانے والی واردات کے ساتھ کیاسکتا ہے ‘ وہاں تو اداکار بومن ایرانی کو ماں مل جانے سے خیر ہو گئی تھی مگر یہاں نہ ماں کا ذکر ہے نہ خیر کی توقع کی جا سکتی ہے ‘ خبر تحریک انصاف کے ایک اہم رہنما فواد چوہدری کے بارے میں ہے جن پر پنجاب پولیس نے واش روم کی ٹوٹی اور پائپ چوری کاالزام لگادیا ہے پولیس کے مطابق فواد چوہدری کے خلاف تھانہ ملتان کینٹ میں مقدمہ نمبر 889/23 درج کیا گیا ہے جس میں موصوف نے سکول سے پائپ اور پانی کی ٹوٹی چوری کی ہے ۔ اب اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس مقدمے کی حقیقت کیا ہے اور مقدمے میں نامزد ملزم کوئی اور ہے جس کا نام فواد چوہدری ہے کیونکہ ایک ہی نام کے کئی لوگ بھی تو ہو سکتے ہیں اور جس طرح ”ہم نام” کے ناتے اسی قسم کی خبریں سامنے آنے پر اخبارات کے سب ایڈیٹر ان پر اسی طرح کی دلچسپ سرخیاں جما کر ایک لمحے کے لئے قارئین کو ششدر کر لیتے تھے ‘ یا پھر جس زمانے میں نشہ آور پوڈریعنی ہیروئن پکڑے جانے کے بعد خبر کی سرخی یوں جمائی جاتی تھی کہ ”ہیروئن گرفتار” وغیرہ وغیرہ اس لئے اب ذرا انتظار تو کرنا پڑے گا کہ یہ وہی فواد چوہدری ہیں جو ایک سیاسی جماعت کے اہم رہنما اور سابق وفاقی وزیر ہیں ‘ جن پر چوری کا پرچہ درج کر لیاگیا ہے؟(حالانکہ اب وہ بے چارے اپنی پارٹی میں بھی قابل قبول نہیں رہے اور اپنے لیڈر کا اعتبار بوجوہ کھو چکے ہیں ‘ جس کا گلہ ان کی اہلیہ نے بھی کیا ہے ‘ یا پھر ان کا کوئی ہم نام ہے ‘ جس کے نام سے فائدہ اٹھاتے ہوئے خبر نگار نے سنسنی پھیلانے کی کوشش کی ہے ۔ ویسے پنجاب پولیس سے کوئی بعید بھی نہیں ہے کہ پرچہ اصلی فواد چوہدری ہی کے خلاف درج کر لیا گیا ہو’ کیونکہ اس قسم کی پرچے بازی بہت مدت سے پنجاب میں عام رہی ہے اور ماضی میں بعض سیاسی رہنمائوں کے خلاف بھینس چوری کے پرچے درج بھی ہوتے رہے ہیں اور ان کو عدالتوں میں گھسیٹ کر ذلیل وخوار کرنے کی کارروائیاں بھی ہوتی رہی ہیں ‘ بلکہ بھینس چور کی واردات کو سچ ثابت کرنے کے لئے ایسے ”لوگ” بھی دریافت کر لئے جاتے تھے جو عدالتوں میں حاضر ہو کر یہ گواہی دیتے رہتے تھے کہ جی بھینس انہوں نے”مطلوبہ چور” ہی سے سستے داموں خریدی ہے وغیرہ وغیرہ ‘ ان وارداتوں کا مقصد”چور” کی سیاسی ساکھ کو نقصان پہنچا کر آنے والے انتخابات میں بطور امیدوار راستہ روکنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہوتا تھا ‘ شنید ہے کہ اسی قسم کا ایک پرچہ گجرات کے ایک چوہدری خاندان کے مرحوم سربراہ کے خلاف بھی درج کرایا گیا تھا تاہم چونکہ وہ خود بھی پولیس کی ملازمت سے وابستہ رہ چکے تھے اور اس قسم کی وارداتوں کی حقیقت سے آشنا تھے اس لئے خود کو بچا لے گئے ‘ بعد میں بھٹو مرحوم کے ساتھ سیاسی مخالفت بلکہ مخاصمت کی وجہ سے ان کے قومی اسمبلی میں بھٹو مخالف تقاریر پر بھٹو مرحوم نے انہیں تڑی لگائی تھی کہ باز آجائو نہیں تو تمہیں پولیس کی نوکری سے قبل ازوقت ریٹائرمنٹ کے فیصلے کو کینسل کرکے واپس وردی پہنا کر ڈی چوک میں ٹریفک کانسٹیبل کے طور پرڈیوٹی لگوا کر دنیا کو دکھا دوںگا ‘ اب اس کہانی میں بھی کتنی صداقت ہے یہ بات البتہ تحقیق طلب ہے ممکن ہے بات درست ہو کیونکہ ضیاء الحق نے بھٹو کو پھانسی کی سزا پر مہر تصدیق ثبت کرتے ہوئے جس قلم(پین) سے دستخط کئے تھے وہ چوہدری صاحب نے بطور تحفہ ان سے طلب کرلیا تھا جس کی سزا چوہدری صاحب کے قتل کی صورت(مبینہ طور پر) برآمد ہوئی تھی ‘ بہرحال دیکھتے ہیں کہ فواد چوہدری کو سکول سے ٹوٹی اور پائپ چوری میں سزا ہوتی ہے یا پھربقول پروین شاکر
مشکل ہے کہ اب شہر میں نکلے کوئی گھر سے
دستار پہ بات آگئی ہوتی ہوئی سر سے

مزید پڑھیں:  شاہ خرچیوں سے پرہیز ضروری ہے!