آڈیو لیکس

مشرقیات

نقل کے لیے بھی عقل کی ضرورت ہوتی ہے کم عقلی کی نہیں تاہم آج کی نوجوان نسل نے بزرگوں سے عقل کی بجائے اپنے ہاں کے لیڈروں سے جوش وجذبات ہی وصول کرکے انہیں سے کام شام چلانے کا عز م کیا ہوا ہے ۔ابھی ہم ایک واقعے کو روتے ہوئے عقل پر ہاتھ مار نے سے فارغ نہیں ہوئے ہوتے کہ یارلوگوں نے ایک اور کارنامہ سرانجام دے چکے ہوتے ہیں۔اب بنوں کے برخورداروں کو لیں دسویں جماعت کے امتحان میں انہیں نقل کا نسخہ استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی گئی تو وہ ہتھے سے اکھڑ کر مک مکا کرنے کی بجائے سڑکوںپر کھلے عام بلکہ یوں کہیں بیچ چوراہے ہانڈی پھوڑ بیٹھے اور یوں سب کو خبر ہوگئی کہ امتحان دینے اور لینے والوں کے درمیان مک مکا نہیں ہوسکا۔سرکاری اسکول کے طالب علم تو ویسے بھی راندہ درگاہ ہیں اپنے زور بازو پر نقل کرکے عقل کل کہلائیں تو اور بات ہے ورنہ کون ان کے سر کا اتنا بھاری صدقہ دے سکتا ہے کہ وہ ہر امتحانی پرچے کے ہر سوال کا شافی جواب بقلم خود کھلے عام نقل کرکے اپنے والدین کے سامنے سرخرو ہو سکیں۔اس لیے وہ چوری چھپے بوٹی سے کام چلاتے ہیں یا پھر ماں باپ سے چوری چھپے گھر سے کوئی بھی قیمتی چیز پارکرکے عملے میں سے اپنے لیے ہمدرد ڈھونڈلیتے ہیں ۔ان سرکاری اسکولوں کے پرڈیوٹی سرانجام دینے والے اساتذہ کرام میں بھی بہت سے اپنا دست تعاون دراز ہی رکھتے ہیں۔رہی بات نجی اسکولوں کے سیٹھ مالکان کی تو جناب آپ کو اچھی طرح معلوم ہے کہ وہ نقد سودا چکا کر ایڈوانس بکنگ کے اصولوں پر عمل کرتے ہیں۔’نامور’اسکولوں کواول دوم سو م وغیرہ کی پوزیشنیں فروخت کرنے کے بعد چھوٹے موٹے نجی اسکولوں کے مالکان کے چندا یک ہونہاروںکو بھی اتنے نمبر عطا کر دئیے جاتے ہیں کہ وہ اپنے ہاں پڑھنے والے ان ہونہاروں کی تصویری نمائش سے مزید لوگوں کو اپنے اسکولوںکی طر ف راغب کر سکیں۔ایسے میں ان نجی اسکولوں کی جانب سے توڑ پھوڑ وہ بھی نقل کی اجازت نہ دینے پر احتجاج کاسوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔تو ظاہر ہے بنوں میں نقل کی اجازت نہ دینے پر اودھم مچانے والوں کا تعلق سرکار کے زیرانتظام استادوںکی استادی سے ہے ۔ویسے جب بات اب کھل ہی گئی ہے تو شرمانے کو رہا کیا ہے ۔چوری چھپے کام سرعام ہونے لگے ہیںاس لیے جس نے کی شرم اس کے ڈوبے کرم۔لہذا اب اس بات کی انکوائری ہونی چاہیئے کہ جب تمام اسکولوں میں سے کسی ایک جگہ سے بھی نقل کی اجازت نہ دینے کی شکایت موصول نہیں ہوئی تو پھر ایک اسکول کے طلباء کے ساتھ یہ خصوصی سلوک کیوں کیا گیا؟اس بات کی انکوائری کرکے ارباب اختیار اس امتیازی سلوک میں ملوث ہونے والوںکے خلا ف کارروائی کریں ۔یہ بھی دیکھا جائے کہ آخر یہ ممتحن کون تھے جو انوکھے ثابت ہوئے اورعام چلن پر چلنے سے انکار کرکے ہمارے نوجوانوں کو غصہ کر بیٹھے ؟

مزید پڑھیں:  ''چائے کی پیالی کا طوفان ''