آڈیو لیکس

جی 20اجلاس کا ناکام انعقاد

مقبوضہ کشمیر میں تین عالمی معیشتوں کے اتحادجی20 کے سیاحت بارے ورکنگ گروپ کے اجلاس میں بھارتی تنہائی کھل کر سامنے آگئی ہے اس کی وجہ بھارت کے غیر قانونی طور پر مقبوضہ جموں وکشمیرمیں بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اڑا کر ورکنگ گروپ کے اجلاس کی میزبانی ہے جموں و کشمیر میں مظالم کو معمول بنانے کی حکومت کی کھلی کوششیں کسی بڑے ڈرائونے خواب سے کم نہیں ان حالات میںمدعو ممالک کا بائیکاٹ کا فیصلہ ہی واحد راستہ مناسب تھا۔مقبوضہ کشمیر میں منعقد ہونے والے بیس عالمی معیشتوں کے اتحاد ”جی20” کے سیاحت سے متعلق ورکنگ گروپ کے اجلاس میں چین شرکت سے پہلے ہی معذرت کر چکا ہے اب سعودی عرب، ترکی اور مصر نے بھی اجلاس کا بائیکاٹ کرکے رہی سہی کسر پوری کردی اس کے بعد اجلاس کا انعقاد برائے نام رہ گیا ہے ۔چین پہلے ہی جموں و کشمیر کو ایک متنازع علاقہ قرار دینے کے اپنے موقف کا اعادہ کرتے ہوئے اعلان کر چکا ہے کہ وہ سری نگر میں جی 20 کے سیاحت سے متعلق ورکنگ گروپ کے اجلاس اور دیگر تقریبات میں شریک نہیں ہوگا۔بھارتی وزارت خارجہ نے موقف کو دہراتے ہوئے کہا کہ جموں و کشمیر اور لداخ کے معاملے پر کسی دوسرے ملک کو اس پر تبصرہ کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ترکی، سعودی عرب اور مصر، اسلامی تعاون تنظیم(او آئی سی)کے تمام ارکان کی جانب سے جموں و کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کرنے پر بھارت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اجلاس کا بائیکاٹ کیاگیاہے ۔واضح رہے کہ بھارت نے یکم دسمبر2022کو جی20کی صدارت سنبھالی تھی اور یہ رواں برس پہلی بار جی ٹوئنٹی کے سربراہی اجلاس کی میزبانی انجام دے رہا ہے ، بھارت اس منصب پر 30نومبر2023تک فائز رہے گا۔جی 20تنظیم کے رکن ملکوں میں بھارت، امریکہ، چین، برطانیہ، روس، سعودی عرب، آسٹریلیا، کینیڈا، جرمنی، فرانس، اٹلی، جاپان، ارجنٹائن، برازیل انڈونیشیا،میکسیکو، جنوبی افریقہ، جنوبی کوریا اور ترکیہ سمیت یورپی یونین شامل ہے۔ادھر وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ بھارت سمجھتا ہے کہ ایک کانفرنس رکھ کر وہ کشمیر ی عوام کی آواز کو دبا سکتا ہے، ہم اس کو غلط ثابت کریں گے۔ مظفرآباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بھارت کے اقدام سے اس کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے آجاتا ہے۔خودکو ایک عالمی قوت کے طورپرپیش کرنااوراقوام متحدہ کے قوانین کی خلاف ورزی ساتھ ساتھ نہیں چل سکتی۔جی20 اجلاس کا واضح موقف کے ساتھ بائیکاٹ سے مقبوضہ کشمیر کے اپنے مشکوک الحاق کو معمول پر لانے کی ہندوستان کی کوششوں کو شدید دھچکا لگنا فطری امر ہے کیونکہ جی 20ممالک کی ایک بڑی تعداد نے سری نگر میں ہونے والے سیاحتی اجلاس میں شرکت سے انکار کر دیا ہے یہ امر خوش آئند ہے کہ ان اقوام نے مقبوضہ کشمیر کے مظلوم عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے ایک جرات مندانہ قدم اٹھایا ہے۔ اگرچہ سری نگر سیاحتی کانفرنس کے لیے ایک دلکش مقام ہو سکتا ہے،مگر بھارت کا اس پر قبضہ اور مظالم سے اس حسن بھی گہنا دیا ہے۔ بھارت کے قبضے کے گھٹن کے نشانات، اور بھارتی افواج کے ہاتھوں بہائے جانے والے لاتعداد کشمیریوں کے خون کا مطلب یہ ہے کہ تمام باضمیر قوموں کو اس سے دور رہنا چاہیے جسے اب بھی بین الاقوامی سطح پر ایک متنازعہ علاقے کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔مقبوضہ علاقے سے موصول ہونے والی رپورٹوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت صورتحال کوصاف ظاہر کرنے کے لیے تمام رکاوٹیں راستے ہٹا رہا ہے جی20 کے اجلاس سے پہلے ہندوستان نے بڑے پیمانے پر گرفتاریاں، چھاپے، نگرانی اور ظلم و ستم کابازار گرم کیا۔جیسا کہ اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے برائے اقلیتی حقوق نے حال ہی میں نوٹ کیا، سری نگر میں اجلاس کا اہتمام کرکے، بھارت نے کشمیری مسلمانوں کے حقوق کے "وحشیانہ اور جابرانہ انکارکو معمول پر لانے کی کوشش کی، جبکہ انہوں نے مزید کہا کہ جی 20غیر دانستہ طور پر بھارت کی حمایت کا اظہار کر رہا ہے”۔ متنازعہ علاقے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاںبھارت کے حکمران 2019میں اس خطے کو ضم کرنے کے بعد تکبر کے ساتھ کشمیر کو بین الاقوامی ایجنڈے پر ایک نان ایشو سمجھتے ہیں۔ تاہم، جب جی20 کے طاقتور ارکان نے قبضے کو معمول پر لانے پر اعتراض کیا، تو نئی دہلی میں بہت سے لوگوں کے پیٹ میں مروڑ اٹھا۔امر واقع یہ ہے کہ بین الاقوامی نظم بنیادی طور پر حقیقی سیاست اور اخلاقی رہنما خطوط کی موجودگی سے چلتی ہے،جس سے بھارت کو کوئی سروکار نہیں لیکن بہرحال خوش آئند امر یہ ہے کہ کچھ عالمی کھلاڑی اب بھی دنیا بھر کے مظلوم لوگوں کے لیے آواز اٹھانے کے لیے تیار ہیں۔ خاص طور پر افسوسناک بات یہ ہے کہ جی 20 کے مغربی ارکان – جو یوکرین پر روس کے قبضے پر روتے رہے ہیں انہوںنے خوشی سے کشمیر پر ہندوستان کے قبضے پر اپنی منظوری کی مہر ثبت کردی ہے۔ان کا مقبوضہ و متنازعہ وادی جس کی اقوام متحدہ کے تحت خصوصی حیثیت بھی بھارت نے تبدیل کر لیا ہے اس کے باوجود ان کی جی 20 کے اجلاس میں بلا اعتراض شرکت ہے سب سے افسوسناک بات او آئی سی کے بعض ممبرممالک کی شرکت ہے وہ بھی اگر مقبوضہ وادی میں مسلم برادری پر بھارتی مظالم کے خلاف آواز اٹھا کر اور ان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرکے اجلاس میں شرکت سے انکار کرتے تو یہ زیادہ موثر اور توانا آواز ہوتی اور بھارت کے لئے مزید خجالت کا باعث ہوتا۔

مزید پڑھیں:  اپنے جوتوں سے رہیں سارے نمازی ہو شیار