اس ملک کی بات

پاکستان کے حالات پر کڑھتے اور بہتری کی امید کا ہاتھ تھام کر صبح کو شام کرتے مجھے شاید صحافت کے آنگن میں قریب تین دہائیاں ہونے کو ہیں۔ ابھی تک نہ کبھی امید بر آئی نہ ہی کوئی صورت نظر آئی لیکن ایک عام آدمی امید کے علاوہ کچھ اور نہیں کرتا تین دہائیوں کے بعد ‘ملک کو اس حالت دگرگوں میں دیکھنے کے بعد یہ معلوم ہوا کہ سارا کام ہی عام آدمی کا تھا۔جمہوریت اسی کا نام ہے ۔ شعور عام آدمی کو اپنے اندر پیدا کرنا تھا، اس ملک کا احساس بھی عام آدمی کو ہونا تھا کیونکہ اس ملک میں رہنا بھی عام آدمی نے ہے۔ اس ملک سے محبت بھی صرف عام آدمی نے کرنی تھی کیونکہ جو ذرا بھی اہل ہوگا وہ تو ملک سے باہر جائے گا ۔ اس ملک کے مستقبل کی فکر عام آدمی نے کرنی تھی کیونکہ عام آدمی ہی کے بچوں کا مستقبل اس ملک سے وابستہ ہے ۔ اس ملک کے لئے کام بھی عام آدمی نے کرنا تھا کیونکہ کام کرنا عوام کا ہی خاصہ ہے، خواص تو بس حکومت کیا کرتے ہیں ۔ اگر وہ بھی کام کرنے لگیں گے تو حکومت کون کرے گا۔ ایمان داری بھی تو عام آدمی کو کرنی تھی کیونکہ خواص کے لئے یہ ذرا مشکل کام ہے اور ووٹ کے دینے کا شعور بھی عام آدمی کو ہی ہونا چاہئے تھا کیونکہ اتنے عرصے میں اگر اسے یہ بھی سمجھ نہ آئے کہ کون سے حکمران اس ملک کا بھلا چاہتے ہیں اور کون بس لوٹنا ہی چاہتے ہیں تو پھر ایسے عوام پرکیسے بھی حکمران حکومت کریں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ اس سب میںایک مشکل تھی عوام شعور پیدا تو کر لیتے لیکن اس آگہی کے بعد ووٹ کس کو دیتی با کیونکہ آگہی کی بصیرت کے ساتھ ہی موجودہ سیاسی لاٹ میں سے کسی میں انتخاب مشکل ہو جاتا’ اور اسمبلیوں میں انبوہ کثیر کے بجائے چند لوگ دکھائی دیتے ۔ ہر ایک پارٹی کے اکا دکا لوگ ہوتے اور حکومت بنانی اور چلانی مشکل ہو جاتی۔ سو اس قدر شعور تو عوام نے خود میں پیدا کیا ۔ اپنی اور حکومتی مجبوریوں کا خیال رکھا اپنی آنکھیں بند کر لیں ‘ہاتھ پھیلا لئے ‘ منہ کھول لئے ۔ سو وہی نتیجہ ہے جو اب دکھائی دیتا ہے ۔ جس نے آس کو یاس میں بدل دیا ہے اور جس کے بعد اب ملک میں کسی بہتر کل کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ایک عرصے سے یہ قوم ایک مسیحا کی منتظر ہے لیکن مسیحا نہیں آیا ۔ ہر بار جس سے امید لگائی وہ کسی اور منزل کا مسافر نکلا اس نے بھی اس ملک کی فلاح کو کسی اور کا کام سمجھا۔
ایک طویل عرصے سے میں اور آپ اسی گورکھ دھندے میں الجھے ہوئے ہیں ‘ کون کب ‘ کہاں ملے گا بس یہی سوال ہیں اور جواب کوئی نہیں۔ اس سب کا جواب مل بھی نہیں سکتا کیونکہ اس کا جواب کسی اور کے پاس ہے ہی نہیں ۔ اس کا جواب ہم میں سے ہر ایک شخص نے خود میں تلاش کرنا تھا اور خود ہی دینا تھا ۔ جب کسی کو احساس ہوتا کہ اصل ذمہ داری کس کی ہے اس کے اپنے اندر سے ہی کھوکھلے پن کی آواز آتی رہی ہم میں سے ہر ایک نے اپنے حصے کا دودھ کا پیالہ اس حوض میں نہیں ڈالا بلکہ دوسرے پر بھروسہ کرکے پانی ہی ڈالتے رہے اور اب جب آنکھ کھلی ہے تو سارا حوض پانی کا بھرا ہوا ہے ‘ اور ہم ایک دوسرے سے الجھ رہے ہیں ہمارے حکمران آپس میں گتھم گھتاہیں ان حکمرانوں میں کسی ایک کو بھی اب اس ملک کی بقاء اور سلامتی کا احساس باقی نہیں ۔ وہ بس اپنی انا کی تسکین چاہتے ہیں کس میں زیادہ طاقت ہے یہ دکھانا چاہتے ہیں۔ اس سب میں یہ احساس ہی کسی میں باقی نہیں رہا کہ جس کے سامنے طاقت کے مظاہرے ہو رہے ہیں وہ تو خود ہی نیم جاں ‘ بے نوا اور ناامید ہیں ۔ جو پہلے سیلاب سے اجڑے ‘ اب مہنگائی میں پس رہے ہیں۔ ان میں تو اتنی جان بھی نہیں کہ آہ کر سکیں۔ انہیں بھلا کیا دکھانا ہے کہ کس میں طاقت زیادہ ہے ۔ اس ملک میں تو بھوک کی شدت سے بلبلا کر لوگ کسی بڑے ایوان کے سامنے دہائی بھی نہیں دیتے بس اپنے بچوں کو زہردے کر خود چپ چاپ زہر کھا لیتے ہیں ۔ اب تو احتجاج کی کوئی سکت ان میں باقی نہیں رہ ‘ یہ جو نو مئی کا غم ہم منا رہے ہیں اس میں کتنے عوامل ساتھ شامل رہے ہونگے اور کیا امید ہوگی؟ یہ بھی سمجھنے کی بات ہے کہ کیا کوئی امید تھی یا بس غصہ ہی تھا؟ عمران خان واقعی ریڈ لائن تھے یا لوگ بھوک سے مہنگائی سے بھی اکتائے ہوئے تھے ۔ ان کے پاس اپنے درد کے اظہار کا کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ وہ اور ان کے بچے جو سڑکوں پر ڈنڈے اٹھائے گھوم رہے تھے انہیں صرف عمران خان کی گرفتاری کا ہی غصہ نہیں تھا ۔ وہ لڑکا جس کے منہ سے کف بہہ رہا تھا ‘ اور جس کی آنکھوں میں عجب سی دیوانگی تھی ‘ جو لوگوں کی گاڑیوں پر ڈنڈے برسا رہا تھا ‘ اسے یہ معلوم نہیں تھا کہ عمران خان کی گرفتاری سے کونسی ریڈ لائن کراس ہو گئی ہے ۔ اس کی ریڈ لائن تو اس کا باپ تھا جو باوجود محنت کے اپنے بچوں کو دو وقت کا کھانا فراہم نہیں کر سکتا۔ وہ بجلی کا بل اس کی ریڈ لائن تھا جس کی ادائیگی کے لئے اس کی ماں کے ہاتھ کی اکلوتی مندری بک گئی تھی ‘ اور اس پر زار و قطار روتی تھی ۔ اس کی ریڈ لائن تو وہ گزشتہ عید تھی جب وہ بہت خواہش کے باجود بھی ایک چپل نہ خرید سکا تھا ۔ اسے تو پوری طرح یہ معلوم بھی نہیں تھا کہ کپتان کیا کہتا ہے بس اس نے سنا تھا کہ وہ ٹھیک کہتا ہے اور ریڈ لائن تو اس کی زندگی پہلے ہی گزارے کھڑی تھی ‘ اس کی زندگی کی محرومیوں کا ذمہ دار ہر وہ شخص تھا جوگاڑی میں تھا ‘ موٹر سائیکل پر تھا ‘ مسکرا رہا تھا جو بڑے بڑے گھروں میں رہ ہاتھا ‘ لیکن اس سب کے باوجود جب میں نے اس سے واپس مڑ جانے کے لئے راستہ مانگا تو اس نے مجھے راستہ دیا ۔ اس کی وحشت میں کہیں اس کے ماں باپ کی انسانیت ابھی زندہ تھی ‘ اوراب ان کا فیصلہ بھی ایسے ہی ہونا چاہئے کیونکہ اگر یہ نہ ہوا تو پھر ہم میں سے کسی کا یہ احساس کرنا کہ اس ملک کے لئے ہمیں محنت کرنے کی ضرورت ہے کسی کام نہ آئے گی۔ اس وقت سیاست کی انگار وادی کے مناظر کے بجائے اس ملک کے لوگوں کو کسی مثبت بیانئے کی ضرورت ہے ۔ انہیں وہ تھمایئے اور پھر دیکھیں کہ یہ انبوہ کثیر قوم کیسے بنتا ہے اور اس ملک کی بہتری کے لئے کیسے کام کرتا ہے ۔ لیکن پھر میں سوچتی ہوں یہ کون کرے گا؟ اب تک جو کچھ ہو رہا ہے وہ کون کر رہا ہے؟۔

مزید دیکھیں :   کیا خبر ہے کہ گزاریں گے کہاں عید اب کے؟