کیا 9اور 10مئی کے واقعات عمران خان کی گرفتاری کا فوری ردعمل تھے جیسا کہ وہ خودکئی بار کہہ چکے یا ان کے لئے پہلے سے منصوبہ بندی کی گئی تھی جس کا دعوی حکومتی ذرائع کررہے ہیں۔ وجہ کچھ بھی رہی ہو حقیقت یہ ہے کہ ان واقعات کی تائید بہرطور نہیں کی جاسکتی۔ جلائو گھیرائو بلوے اور دوسرے ناپسندیدہ واقعات پر مقدمات کا اندراج اور گرفتاریاں قانونی تقاضا ہیں البتہ قانونی تقاضوں کی تکمیل میں اس امر کا خیال بطور خاص رکھا جانا چاہئے کہ اولا اس سے کسی مطلوب شخص کے اہل خانہ کی تذلیل نہ ہو نیز یہ کہ گرفتاریاں ٹھوس شواہد کی بنا پر ہوں نگ پورے کرنے کے لئے نہیں۔ ان بعض اطلاعات پر شہریوں کی تشویش بجا ہے کہ بعض مطلوب افراد کی گرفتاریوں کے عمل میں چھاپہ مار ٹیموں نے حد سے تجاوز کیا اور بعض افراد کی عدم گرفتاری پر ان کے خاندان کے ایک دو افراد کو گرفتار کرلیا۔ یہ بدلے کی گرفتاریاں خلاف قانون ہی نہیں بلکہ بذات خود ایک جرم ہیں۔ بدقسمتی سے جدید تقاضوں کے مطابق تربیت سے محروم پولیس اہلکاروں کی غالب اکثریت کا رویہ ہمیشہ قابل اعتراض رہا ہے کیونکہ کسی ملزم کی جگہ بھائی بہن، باپ یا کسی دوسرے عزیز کی گرفتاری بنیادی طور پر بلیک میلنگ ہتھیار ہے۔ اس روایتی ہتھکنڈے کی کبھی کسی نے تائید نہیں کی اور کی بھی نہیں جانی چاہیے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ تیسری دنیا کے پسماندہ ترقی پذیر ممالک میں سماجی و اخلاقی اقدار کی پاسداری اور قانون کے محافظوں کا شہری آزادیوں کا احترام کرنا ایسا خواب ہے جس کی کوئی تعبیر نہیں۔ یہ بجا ہے کہ جرم ہوا ہے مگر ملزموں کو گرفتار کرکے انصاف کے کٹہرے میں لانے کی بجائے ایسا ماحول بنادینا جس سے مزید دوریاں پیدا ہوں، درست نہیں ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ حالیہ عرصہ میں جس طرح جلائو گھیرائو اور بلوے کے واقعات قابل مذمت سمجھے جارہے ہیں اسی طرح قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کی جانب سے حدود سے
تجاوز کو بھی نہ صرف قابل مذمت سمجھا جائے گا بلکہ اس کے مرتکب افراد کے خلاف کسی تاخیر کے بغیر محکمانہ کارروائی کی جائے گی۔ اسی طرح حالیہ واقعات میں گرفتار ہونے والی بعض خواتین کے ساتھ نامناسب برتائو کی شکایات سامنے آئیں یہ بھی کسی طرح قابل ستائش نہیں۔ صد افسوس کہ تحریک انصاف کے بعض سوشل میڈیا اکائونٹ سے چند سال قبل شوہر کے قتل میں گرفتار ہوئی ایک خاتون کی جانب سے پولیس پر لگائے گئے الزامات کو حالیہ واقعات اور گرفتاریوں کے تناظر میں نیا رنگ دے کر ویڈیو وائرل کی گئی جس سے مزید بدمزگی پیدا ہوئی۔ یہ کہنا کہ یہ عمل کا ردعمل ہے درست نہیں ہوگا۔ جہاں قانون نافذ کرنے والے محکموں کے اہلکاروں کا فرض ہے کہ وہ حدود سے تجاوز نہ کریں وہیں پی ٹی آئی کے کارکنوں کا بھی فرض ہے کہ جوابی طور پر ایسی ویڈیوز اور واقعات کو حالیہ صورتحال سے منسوب کر کے آگے بڑھانے سے گریز کریں تاکہ کسی غلط بات پر اشتعال نہ پھیلے۔ جہاں تک وزیراعظم کے گزشتہ روز کے اس بیان کا تعلق ہے کہ جناح ہائوس لاہور پر حملہ عمران خان کے حکم پر ہوا ہے ۔ اس پر بھی یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ بہتر ہوگا اگر حکومت کے پاس کوئی ثبوت ہے تو گرفتار ملزمان کے خلاف مقدمات کی سماعت کے وقت ان ثبوتوں کو عدالت کے سامنے رکھے کیونکہ قبل ازوقت کوئی دعوی الزام برائے الزام کے زمرے میں آئے گا۔ ہم اس امر کی جانب متوجہ کرنا ازبس ضروری سمجھتے ہیں کہ گرفتار شدگان کے خلاف چھائونی کی حدود میں جلائو گھیرائو اور پرتشدد مظاہروں کے جرم میں مقدمات چلانے سے قبل اس امر کی تحقیقات کرالی جائیں کہ شہری علاقوں سے احتجاجی مظاہرین کی بڑی تعداد کسی روک ٹوک کے بغیر چھائونی کے علاقوں میں کیسے داخل ہوگئی کیونکہ عام حالت میں تو ایک عام شہری کے لئے ان حدود سے گزرنا ہی مشکل ہوتا ہے۔ داخلی سہولت کاری یا پیشگی منصوبہ بندی معاملہ جو بھی رہا ہوں اس کی تحقیقات اولا تو بہت ضروری ہے دوسرا یہ کہ تحقیقاتی رپورٹ اگر مقدمات کی سماعت سے قبل عوام کے سامنے رکھی جائے اور اس کے ساتھ سہولت کاری کے مرتکب افراد کے خلاف بھی کارروائی ہو تو زیادہ بہتر ہوگا۔ موجودہ صورتحال میں معاملات جس طور آگے بڑھ رہے ہیں ان میں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے اس موقف کو بھی سامنے رکھنا ہوگا کہ 9اور 10مئی کے واقعات کی آڑ لے کر میری جماعت کو ختم کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں غالب امکان یہی ہے کہ انہوں نے حالیہ دنوں میں پی ٹی آئی سے الگ ہونے والے رہنماوں کے بیانات پر اپنا ردعمل ظاہر کیا ہے۔ ان کے خیال میں ان کی جماعت کے سابق ارکان قومی و صوبائی اسمبلی وزرا اور دیگر لوگوں کو دبائو کے ذریعے پارٹی چھوڑنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ یہ خیال اس لئے درست سمجھا جارہا ہے کہ ان کی جماعت کی تعمیرنو کا جو عمل اکتوبر 2011 میں شروع ہوا تھا اس میں بھی اگلے سات برسوں کے دوران اسی طرح کے دبائو کی شکایات سامنے آئی تھیں اور مختلف پارٹیاں چھوڑ کر پی ٹی آئی میں شامل ہونے والے زیادہ تر لوگ جو کہانیاں سناتے تھے اب عمران خان اور ان کے حامی ویسی ہی کہانیاں سنارہے ہیں۔ سیاسی جماعتیں توڑنے، الیکشن مینجمنٹ اور دوسرے ہتھکنڈے گزرے برسوں میں درست تھے نہ اب انہیں درست کہا جاسکتا ہے۔ گو طاقتور حلقے حالیہ
دنوں میں پیدا ہوئے "رخصتی ” کے رجحان کی حوصلہ افزائی کی تردید کرتے دکھائی دیتے ہیں اور پی ٹی آئی چھوڑنے والے بھی 9 اور 10مئی کے واقعات پر ذہن تبدیل ہونے کا عندیہ دے رہے ہیں پھر بھی یہ امر قابل غور ہے کہ اگر ایسا ہی ہے تو سابق وزیراعظم تو گزشتہ 13ماہ سے یہی کچھ کہہ رہے ہیں جس کا فطری نتیجہ 9اور 10مئی کو سامنے آیا تو پھر یہ محب وطن لوگ 13ماہ تک خاموشی کیوں بیٹھے رہے؟ ہماری دانست میں حالیہ افسوسناک واقعات کے ذمہ داروں کے خلاف جہاں بلاامتیاز کارروائی ضروری ہے وہیں یہ بھی لازم ہے کہ یہ کارروائی جبر کی صورت اختیار نہ کرنے پائے نہ ہی اس سے یہ تاثر ابھرنا چاہیے کہ ایک طرف حدود سے تجاوز ہورہا ہے تو دوسری طرف پی ٹی آئی سے الگ ہونے کے لئے لوگوں پر دبائو ڈالا جارہا ہے۔ یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ حکومت کو عمران خان کی یہ پیشکش قبول کرلینی چاہیے کہ اگر حالیہ واقعات میں ان کی پارٹی کے لوگ ملوث ہیں تو حکومت ثبوت دے میں خود ان کی گرفتاریوں میں تعاون کروں گا۔ بظاہر یہ پیشکش "جی کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے” کے مصداق ہے پھر بھی اگر اسے قبول کرلیا جائے تو کوئی برائی نہیں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔ ہم امید کرتے ہیں کہ حالیہ واقعات کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کے عمل میں قانون و انصاف کے تقاضے پورے کئے جائیں گے محض تعداد پوری کرنے کیلئے پکڑ دھکڑ کی حوصلہ افزائی نہیں کی جائے گی نیز یہ کہ ماضی کی طرح کسی شخص پر پارٹی چھوڑنے کے لئے بھی کوئی دبائو نہیں ڈالا جائے گا۔ یہاں ہم سابق وزیراعظم عمران خان سے بھی درخواست کریں گے کہ وہ بھی سوشل میڈیا استعمال کرتے ، تقاریر، بیانات اور انٹرویو میں الفاظ کے چنائو کا بطور خاص خیال رکھیں تاکہ ایسی صورتحال نہ پیدا ہونے پائے جس پر بعد میں سب ملال کرتے پھریں۔ امید واثق ہے کہ عمران خان، حکومت اور دیگر سبھی اپنی اپنی ذمہ داریوں کا بطور خاص خیال رکھیں گے ۔
