بازیچہ اطفال

آج کی نوجوان نسل دین و مذہب اور سیاست و ریاست کے حوالے سے ایک ایسے چوراہے پرکھڑی ہے جہاں وہ صحیح سمت کا تعین کرنے میں سخت مشکلات کا شکار ہیں ۔ مطالعہ پاکستان کو گریجویشن تک لازمی قرار دینے کا مقصد ملک کے نوخوانوں کو تحریک پاکستان سے کماحقہ باخبر رکھنا تھا ۔ اِس بات میں کوئی شک نہیں کہ قائد اعظم محمدعلی جناح کی ولولہ انگیز اور صاف وشفاف شخصیت میں ایک بے مثال کشش موجود ہے لیکن لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد پاکستان کی جو تاریخ بنی تھے اس کو صحیح اور درست انداز میں قوم کے نوجوانوں کے سامنے پیش نہیں کیاگیا ۔ اس دوران ایک بڑا المیہ یہ ہوا کہ مطالعہ پاکستان کی کتابوں میں جو کچھ لکھا گیا ، تاریخ کی کتابوں میں اس کے خلاف بہت کچھ سامنے آیا دوسری بدقسمتی یہ ملاحظہ کیجئے کہ مطالعہ پاکستان اور تاریخ پاکستان کے ایسے ماہرین اور دانشورتیار کئے گئے جو نظریہ پاکستان اور وجود پاکستان کے خلاف تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ آج نوجوانوںکی ایک اچھی بھلی ایسی کھیپ وجود میں آئی ہے جو مطالعہ پاکستان اور اس سے جڑے ہوئے تاریخی واقعات کے بارے میں تشکیک کے شکار ہو رہے ہیں۔
نوجوانوں کی اکثریت کو جب ان کے بنیادی حقوق کا حصول کے ٹو سر کرنے کے مترادف لگتا ہے تو وہ نظریہ پاکستان اور مقاصد پاکستان سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج ایک ایسی نسل بیورو کریسی، انتظامیہ اور دیگر شعبوں میں کلیدی مناصب پر براجمان ہے جن کو ملک وقوم اور مشن و ویژن ، آئیڈیاز روز فکر فردا سے کوئی لینا دینا نہیں ہے ۔ وہ اپنی ذات اور ذاتی مفادات و سہولیات تک محدود ہو چکے ہیںبا مقصد اور ویژنری تعلیم اور نظام تعلیم نہ ہونے کے سبب ہماری سیاست اور ریاست ایسے سیاستدانوں کے نرغے میں آچکی ہے جو پارلیمنٹ میں صرف سہولیات و مراعات کے لئے بیٹھے ہوتے ہیں ورنہ عوام کی فلاح و بہبود یا کوئی تعمیری ترقی کے لئے سال بھر میںان کے منہ سے ہوا کے سوا کچھ نہیں نکلتا۔
موجودہ پارلیمنٹ کے اجلاس کے دوران جب اراکین پر نظر پڑتی ہے تو انسان دنگ رہ جاتا ہے کہ یا للعجب !پاکستان نے یہ دن بھی دیکھنے تھے ۔ کیا دنیا کے کسی اور ملک میں ایسا نادر و نایاب پارلیمانی نظام موجود ہے جس میں اکثریتی پارٹی پارلیمان سے باہر ہو اور اقلیتی پارٹی اس شان سے سنگھاسن اقتدار پر براجمان ہو کر چشم بددور 80 وزراء و مشیران کے ساتھ تاریخ پاکستان کی بے مثال وسیع ترین کیبنٹ ہو۔ اپوزیشن بنچوں پر” اپنے” ہی لوگ بیٹھے نظر آتے ہیں ۔اکثریتی پارٹی کی مذبذبیت کا یہ حال ہے کہ کبھی سب یکمشت استعفیٰ پیش کرتے ہیںاور کبھی پھر استعفیٰ واپس لینے اور پارلیمنٹ میں بیٹھنے کا عندیہ دیتے نظر آتے ہیں۔ دو بڑے صوبوں میںاسمبلیاں تحلیل ہو چکیں، لیکن آئین کے مطابق نوے دن کے اندر انتخابات کا اعلان نہ ہو سکا ۔ ان دگر گوں سیاسی حالات پر مستزاد معاشی حالات اس حد تک خراب کہ ملک میں دوسری طبقے بن رہے ہیں ۔ اشرافیہ(انتہائی امیر و مراعات یافتہ)اور انتہائی غریب کہ دو وقت کی روٹی کا حصول وبال جان بنا ہوا ہے ۔ ایسے میں معاشرتی و معاشی حالات میں دونوں انتہائوں پر کھڑے طبقات کے درمیان شدید تصادم و ٹکرائو کے خدشات جنم لیتے ہیں جس سے انقلا بات برپا ہوتے ہیں۔اس وقت پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم کے درمیان ملک اور ملکی مفادات صحیح معنوں میں فٹ بال بنے ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بزرگ دانشور، بیورو کریٹس اور معاشی ماہرین موجودہ حالات کو وطن عزیز کے لئے 1971 کے حالات سے بھی زیادہ سنگین و پر خطر گردانتے ہیں۔
جنرل پرویز مشرف اس دنیا سے رخصت ہوئے ۔ لیکن ان کے آخری الفاظ کہ ” پاکستان کا خدا ہی حافظ” لوگوں کو یاد آ رہے ہیں ۔ جنرل باجوہ پر مسلم لیگ(ن) اور پی ٹی آئی کی تبرا بھیجنے میں برابر شریک ہیں ۔آئی ایم ایف کے نیش تیز سے تیز تر ہوتے جارہے ہیں ۔ ڈالر تین سو روپے کی طرف گامزن ہے ۔غریب عوام کے پندرہ فروری کو تیل کے نرخ بڑھنے اور ضروریات زندگی کی اشیاء پر اس کے متصورہ اثرات سے رونگھٹے کھڑتے ہو جاتے ہیں۔بلند شرح بے روزگاری کے سبب نوجوان سخت مایوسی و فرسٹریشن کے شکار ہیں ۔ جائے آمان کے لئے راہ فرار ڈھونڈنے میں لگے ہوئے ہیں ۔ اپنے ملک، اس کے سیاستدانوں ‘ اداروں اور معاشیات پر دن بدن ان کا اعتبار و اعتماد کمزور ہورہا ہے جو یقینا استحکام پاکستان کے لئے اچھا شگون نہیں ۔
وطن عزیز کو قائم ہوئے پچھتر سال ہو چکے ہیں ۔ ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے کے بعد پاکستان عالم اسلام کی قیادت کے موزوں ترین مقام پرپہنچ چکا تھااوراس سے پہلے بھی بانی پاکستان کے قائم کردہ رہنما خطوط پر سفرجاری رہتا توپاکستان آج ایشیاء کے نمایاں ملکوں میںشمار ہوتا۔ کسی زمانے میں پاکستان نے چین اور امریکہ کے درمیان قائم تعلقات کے لئے اہم کردار ادا کیا تھا ۔ پاکستان میں نااہل و نالائق سیاستدانوں اور طالع آزما جرنیلوں کے درمیان کشمکش نے وطن عزیز کو ناقابل تلافی نقصان سے دوچار کیا ۔پاک افواج کا منظم و مضبوط ادارہ سیاسی و ملکی امورمیں جا و بے جا مداخلت نے نوجوانان پاکستان کی اکثریت کو ایک عجیب گو مگو کی کیفیت میں مبتلا کر رکھا ہے سیاستدان جب اقتدار میں رہتے ہیں تو چیف آف آرمی کے ساتھ اور قسم کے تعلقات رکھتے ہیں اور جب حزب اختلاف میں رہتے ہیں تو کچھ اور انداز تکلم ہوتا ہے ۔ اس سے بھی نوجوان بری طرح متاثر رہتے ہیں۔ ملک کے نوجوان جب امریکی صدر کی سالانہ تقریر میں عوام کی فلاح کے کئے گئے گئے اقدامات و منصوبوں کا سنتے ہیں اور پھر اپنے ہاں جو کچھ تماشا دیکھتے ہیں تو ان کو اپنا ملک اور اس کا نظام بازیچہ اطفال سا نظر آتا ہے۔
تاریخ پاکستان کے اہم واقعات کے فیصلہ کن موڑوں پر ہمارے سیاستدانوں اور جرنیلوں کے فیصلے پڑھتے ہوئے سر پیٹنے کو جی چاہتا ہے ۔ 1962 میں جب چین نے انڈیا کو لداخ میں گردن سے دبوچا تھا تو پاکستان کو اشارہ کیا کہ مقبوضہ کشمیر کو آزاد کرانے کا موقع ضائع نہ کرو’ لیکن کیا میدان جنگ میں گھوڑے تبدیل بھی کئے جاتے ہیں ۔ جبرالٹر آیریشن میں ہماری افواج اکھنور تک پہنچ چکی تھیں لیکن پھر جنرل اختر حسین کی جگہ جنرل یحییٰ نے لے لی اور آپریشن ناکامی سے دوچار ہوکر آزادی کشمیرکا زریں موقع گنوایا گیا ۔ 1971ء میں امریکہ سے بحری بیڑہ آج تک نہ پہنچا۔1998ء میںایٹمی دھما کے کریں نہ کریں کی گوں مگوں کیفیت کا ذمہ دار کون تھا اور پھر دھما کے کس نے کروائے۔ اسکے دعویدار آج بھی کئی ہیں ۔ لیاقت علی خان کی شہادت کے اسباب کیا تھے ۔ دورہ امریکہ و روس کی کہانی آج بھی سربستہ رازہے ۔ میمو گیٹ اور رجیم چینج کی داستان اور راز تو ابھی کل کی باتیں ہیں ۔ ایسے میں نوجوان جب نوجوان سوالات اٹھاتے ہیں تو ذمہ داران جواب پیش کرتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں ایسے لوگوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر خاموش تاریخ پڑھتے ہیں تو سوال پو چھتے ہیں ۔دنیا کے آراء اورجمہوری ملکوں میں جب نوجوان سوالات اٹھاتے ہیں تو ذمہ داران جواب پیش کرتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں ایسے لوگوں کوڈھونڈ ڈھونڈ کر خاموش کرنے کی کوششیں ہوتی ہیں یہی وجہ ہے کہ 75 برس بعد ہمارے ہاں تحریک آزادی جاری ہے جس کے سبب ملک میں سخت کشمکش ہے اور معاشیات بدترین بدحالی کے شکار ہیں یوں آج کے حالات دیکھتے ہوئے کہنا پڑ رہا ہے کہ ۔
بازیچہ اطفال ہے دنیا میرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا میرے آگے

مزید پڑھیں:  موسمیاتی تغیرات سے معیشتوں کوبڑھتے خطرات