مشرقیات

ویسے دن طلوعِ آفتاب سے غروبِ آفتاب کا درمیانی وقفہ ہے مگر دور جدید نے اسے چوبیس گھنٹے میں بانٹ دیا۔۔۔کچھ عشاق کے دن نہیں کٹتے تھے تو کچھ کی راتیں نہیں کٹتی تھیں ،مطلب دن بھاری ہوتا تو راتیں لمبی مگر میرتقی میر کی ہائے ری قسمت !! انھیں سیاہ وسفید میں بس اتنا دخل تھا کہ رات سے رورو صبح کرتے اور دن سے جوں توں شام کرتے۔۔۔خیر یہ ان کا ذاتی مسئلہ تھا۔ان کے رونے دھونے سے پڑوسی بھی شاکی تھا ،پھر بھی انھوں نے اپنی زندگی کے دن پورے کیے بھلے ہی رودھوکر۔۔اور پیری میں آنکھیں موند لیں جبکہ سودا جیسے ہنسوڑ نے جلد دنیا کو خیر باد کہا۔۔۔میر کی آہ وزاری نے دانشوروں کو سوچنے پر مجبور کر دیا کہ ،کیا رونے دھونے سے زندگی کے دن کم ہوتے ہیں ؟؟اور صاحب اچھے دنوں کے خوابوں نے ہمیں یہ دن دکھائے کہ دن میں تارے نظر آرہے ہیں اور بس زندگی کے دن پورے کر رہے ہیں۔ترقی وہ کررہے ہیں جو صاحب کے کہنے پر رات کودن کہہ رہے ہیں ،ان کا ہر دن روزعید اور ہر شب۔۔شب برات۔وہ دن دونی رات چوگنی ترقی کررہے ہیں۔ہم جیسے داغ داغ اجالے اور شب گزیدہ سحر کے مظلوم نوید صبح کے لیے دن گن رہے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ ہر کالا کام ،دونمبری، اور وہ جو روز روشن میں نہیں کیا جاسکتا رات میں کیا جاتا ہے۔۔ان کاموں کی تفصیل بے محل ہے جو ہر جہاں دیدہ جانتا ہے مگر ہمارے شعراء تو وہ ہیں کہ ،،جہاں نہ پہنچے روی وہاں پہنچے کوی،،۔۔ایسے ٹھوس دلائل کے ساتھ اپنی بات پیش کرتے ہیں کہ تسلیم کرنے میں ہی عافیت ہے۔۔!! کہتے ہیں ،
رات کا انتظار کون کرے
آجکل دن میں کیا نہیں ہوتا
بالکل بجا فرمایا۔۔دن کے اجالے میں خواب دکھائے جاتے ہیں۔۔ہوائی چھوڑی جاتی ہے کہ ہوائی اڈہ تیار ہے۔۔ہوائی سفر کیجیے۔۔ہاسٹل دنوں میں بن گیا۔۔بس کچھ دن انتظار کیجیے افتتاح کے لیے !!!۔۔بس یہی دن دیکھنے باقی رہ گئے تھے۔۔غالب صاحب کو فکر لاحق تھی کہ۔۔موت کا دن تو معین ہے۔۔شب بیداری کا سبب کیا ہے ؟۔۔مگر چچا نے رات کے مشاغل بھی ڈھونڈ لیے تھے۔۔جو کافر منہ کو لگی ہوئی تھی اسے شب ماہتاب میں پینا۔۔آسمان پر منتشر ستاروں کو تکنا اور اشعار موزوں ہونے پر کمر بند میں ہر شعر پر گرہ لگانا۔۔واہ غالب صاحب۔۔ہر وبا پر مرنے کا فال نکالتے مگر دن پھرے نہیں تھے تو موت کاہے کو آتی !!!۔۔بعض السی جو دن بھر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھتے ہیں انہیں حرکت وعمل کی دعوت دیں تو بڑی شانِ بے نیازی سے کہیں گے ابھی تو دن پڑا ہے۔۔۔کمال کہ ان کے دن جاتے دیر نہیں لگتی اور محنت کش۔۔۔جو روز کنواں کھودکر روز پانی پیتے ہیں انہیں دن پہاڑ کی طرح نظر آتا ہے۔۔ ہمارے شعراء بھی کمال کرتے ہیں۔عوام دن گنتے ہیں اس لئے کہ دن پھرے ،مگر امیر مینائی کم سن کے وصال کے لیے دن گنتے تھے
دن گنے تھے اسی دن کے لیے
اور ایک صاحب کہتے ہیں ،
وہ دن ہوا ہوئے کہ پسینہ گلاب تھا

مزید پڑھیں:  ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی حکمرانی