ایک نیا پینڈورا باکس

وفاقی حکومت کی طرف سے مبینہ آڈیو لیکس کی تحقیقات کے لیے قائم تحقیقاتی کمیشن میں سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ جسٹس نعیم اختر افغان اورچیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس عامر فاروق شامل ہیں۔انکوائری کمیشن ایکٹ2016کے تحت تشکیل دیا گیا ہے۔مبینہ آڈیو لیکس تحقیقاتی کمیشن کی جانب سے کارروائی پبلک کرنے کا اہم اعلان کیا گیا ہے جسے دلچسپی سے دیکھا جارہا ہے۔ کمیشن کے مطابق کوئی حساس معاملہ سامنے آیا تو ان کیمرا کارروائی کی درخواست کا جائزہ لیا جائے گا۔کمیشن کے سربراہ جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ انکوائری کمیشن کمیشن کی کارروائی سپریم کورٹ اسلام آباد بلڈنگ میں ہوگی۔ جن سے متعلق انکوائری کرنی ہے ان میں دو خواتین بھی شامل ہیں، اگر درخواست آئی تو کمیشن کارروائی کے لیے لاہور بھی جا سکتا ہے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کمیشن صرف حقائق کے تعین کے لیے قائم کیا گیا ہے۔حکومت کی جانب سے اعلیٰ عدالتی عہدیداروں اور ان کے رشتہ داروں اور بعض دیگراہم شخصیات کے درمیان ٹیلی فون پر ہونے والی گفتگو کے عام ہو جانے کے بعد اس کی تحقیقات کے لئے سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جوچند ماہ بعد چیف جسٹس بننے والے ہیں ان کی سربراہی میں جوتین رکنی کمیشن مقرر کیاگیا ہے اس تحقیقاتی کمیشن کو سب سے پہلے ان آڈیو لیکس کے ذرائع اور ذمہ داروں کے حوالے سے معلومات حاصل کرکے ابتداء کرلینی چاہئے تاکہ ان آڈیو ٹیپس کی اصلیت جانچی جا سکے کہنے کو تو یہ آسان لگتا ہے لیکن اس پر عملدرآمد اس لئے نظر نہیں آتی کہ ایک با اصول اور سخت گیر جج ہونے کے باوجود کمیشن کے سربراہ نے اس نکتے کو قواعد و ضوابط اور طریقہ بتاتے ہوئے نظر انداز کرنا مناسب سمجھا۔ بہرحال اس کے باوجود کمیشن کے قیام اور اس کے کام کے حوالے سے ناامید ہونے کی اس لئے بھی کوئی وجہ نہیں کہ ابھی کمیشن نے کام کا آغاز نہیں کیا یہ تو جب معاملات کو آگے بڑھایا جائے گا تو پھر اس کا اندازہ ہوسکے گا کہ کمیشن اس معاملے کو کس طرح نتیجہ خیز بنانے کی سنجیدہ سعی کرتی ہے اور اس کا حاصل کیا ہوتا ہے ۔ کمیشن کے قیام کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کی بھی باز گشت ہے اگر ایسا ہوا تو یہ بڑا دلچسپ ہو گا کہ موجودہ چیف جسٹس اپنے خاندان کے ایک بزرگ خاتون اور دیگر احباب سمیت اہم شخصیات کے فون کالز کے حوالے سے مستقبل کے چیف جسٹس کی سربراہی میں قائم کمیشن بارے کیس کی سماعت کریں گے یا پھر اس حوالے سے کس قسم کے بنچ کی تشکیل کی جاتی ہے اور اعتراضات کا کیا جواب دیا جاتا ہے ۔ حکومت کا موقف ہے کہ کمیشن کا قیام صرف اس مقصد کے لئے عمل میں لایاگیا ہے کہ عدلیہ کی ساکھ ‘ غیر جانبداری اور شفافیت یقینی بن جائے اس حوالے سے اعتراضات اپنی جگہ لیکن اس سے عدالتی شخصیات کے درمیان اختلافات میں اضافہ بھی تو ہو سکتا ہے جس کے نظام عدل پر مزید اثرات پڑیں گے ۔ٹیلی فون کالز کی ریکارڈنگز کا باریک بینی اور تکنیکی مہارت سے جائزہ لینے کے لئے کمیشن پنجاب فرانزک لیب کے ماہرین کی خدمات سے استفاد کرے گی جن کی ان کالز کے حوالے سے جعلی یا مستند ہونے کی رائے اہم ہو گی نیز اس بارے میں شواہد اکٹھی کرنے اور گواہی دینے کے لئے جو طریقہ کار وضع کیا گیا ہے اس سے نہیں لگتا کہ اس حساس اور تکنیکی طور پر پیچیدہ مسئلے میں عوام اور افراد کی جانب سے کوئی ٹھوس شواہد پیش ہو سکیں گی جس سے کمیشن کی معاونت اور ان کے کام میں آسانی ہو یہ اندھیرے میں تیر چلانے والا عمل اس لئے بھی لگتا ہے کہ تیر جس سمت سے آنے کا امکان ہے اس سمت کی طرف سے منہ موڑنے کا رجحان دکھائی دیتا ہے ایسے میں گمنام قسم کے عوامل کی تحقیقات اور ان کی انجام پذیری کا سوال پریشان کن ہوگا ۔نجی گفتگو ریکارڈ کرنا از خود ایک جرم ہے جس کے مرتکبین بھی قانون کے دائرے سے باہر نہیں رکھے جا سکتے ۔یہ غیر منصفانہ معلوم ہوتا ہے کہ ان ریکارڈنگز پر پہلے یہ طے کیے بغیر غور کرنا شروع کیا جائے گا کہ انہیں کس نے، کس مقصد کے لیے، اور کس قانونی منظوری کے تحت بنایا ہے پورا ملک اس بات کا گواہ ہے کہ جسٹس عیسی اور ان کے خاندان کو اس سے پہلے ان کے ذاتی مالی معاملات کی غیر قانونی تحقیقات قرار دیے جانے والے جعلی نتائج پر کس طرح تکلیف اٹھانی پڑی تھی۔ کمیشن کو کم از کم عوامی مفاد میں ایسے عناصر کو بے نقاب کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔آخر میں، یہ حوصلہ افزا امر ہے کہ کمیشن نے فیصلہ کیا ہے کہ اس کی کارروائی کو عام کیا جائے گابہرحال اس میں احتیاط کے ساتھ چلنے کی ضرورت ہو گی۔ بھرے ہوئے سیاسی ماحول اور قانون اور انتظامیہ کے معاملات پر بعض حلقوں کے کنٹرول کو دیکھتے ہوئے، یہ یقینی بنانا ایک چیلنج ہوگا کہ عدلیہ ریاست کی دیگر شاخوں کومتاثرکرنے والے افراتفری سے بالاتر رہے۔عوام کی کمیشن کی سرگرمیوں اور طرز عمل سے بجا طور پر یہ دلچسپی ہو گی کہ یہ کیسے مثال قائم کرتی ہے۔

مزید دیکھیں :   مشرقیات