کریدتے ہو جو اب راکھ جستجو کیا ہے؟

جو چپ رہے گی زبان خنجر لہو پکارے گا آستیں کا بالآخر صورتحال اس نہج پر پہنچ گئی ہے کہ ادارے کے اندر سے گواہیاں آنا شروع ہوگئی ہیں حالانکہ اس سیپہلے ہم جیسے ”خوار” بہت چیخے چلائے یعنی پورے پاکستان کے اخبارات ٹی وی چینلز پر جس کا بھی بس چلا یعنی جس کی جتنی بھی پہنچ تھی وہاں اپنی فریاد خبروں کالموں اداریوں کی صورت میں بلکہ مختلف چینلز پر بعض مہربان اینکرز اور تبصہ نگاروں کی مدد سے ”اوپر” تک پہنچائی لیکن بات وہی پشتو کے ایک محاورے کے مطابق ہی رہی یعنی ”خوار ملا کی اذان پرنماز کون پڑھتا ہے” اس لئے معاملہ ایک بھارتی فلم کبھی خوشی کبھی غم کی طرز پر ”کبھی ہاں کبھی ناں” بلکہ اب تک زیادہ تر ”ہاں” ہی میں اٹکی ہوئی ہے اور ایک اور پشتو ضرب المثل یتیم کے رونے پر کسی کی بھی توجہ نہیں جاتی والی صورتحال اب تک برقرار ہے کیونکہ سمجھا یہی جاتا ہے یتیم کا کیا ہے رونا تو اس کے مقدر میں لکھا ہے اس لئے اس پر کیا توجہ دینی مگر 9 مئی کے واقعات اور سانحات کیا رونما ہوئے جن میں ملک کے دیگر حصوں کی طرح بلوائیوں نے ملک دشمنی کی تمام حدود پھلانگ دیں وہیں پشاور میں بھی جو کچھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے اور جس میں دو واقعات ایسے ہیں جو ایک ہی علاقے میں وقوع پذیر ہوئے یعنی ایک روز شرپسندوں نے ریڈیو پاکستان کے احاطے میں تعمیر کردہ چاغی کے اس ماڈل کو نذر آتش کردیا جو پاکستان کی جانب سے بھارتی جارحیت کے توڑ کرنے کے حوالے سے پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کے یادگار کے طور پر قائم کیا گیا تھاا اور ہماری تاریخ کے ایک اہم دن کی یاد دلاتا رہتا ہے جبکہ اگلے ہی روز ملک کے اہم ادارے ریڈیو پاکستان کی عمارت کو جلاکر راکھ کردیا گیا ان قومی نشانوں کو جس طرح تاراج کیا گیا اس نے خصوصاً ریڈیو پاکستان جیسے ورثے کو اندر باہر سے ”آشکار” کردیا لفظ آشکار کو واوین میں لکھنا ہماری مجبوری ہے کیونکہ ہم بھی دیگر ہزارہا افراد کی طرح تین دہائیوں سے زیادہ عرصے تک اس ادارے سے وابستہ رہنے ناتے خود اپنے ہی قلم سے اپنی ”بے حرمتی” نہیں کرسکتے وگرنہ آشکار کی جگہ کئی ایسے الفاظ موجودہیں جن سے ہم اپنے اس عظیم الشان ادارے کی ”بے لباسی” کو عیاں کرسکتے تھے۔ بہرحال عمارت کے جلنے سے جہاں ہماری پوری نشریاتی تاریخ جل کر راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہوگئی ہے وہاں ادارے کی ”اصل” حالت بھی آشکار ہوگئی ہے ا ور تازہ خبر جو اس حوالے سے سامنے آئی ہے اسے زیر بحث لانے سے پہلے مرزا غالب سے رجوع کرتے ہیں۔
جلا ہے جسم جہاں دل بھی جل گیا ہوگا
کریدتے ہو جو اب راکھ جستجو کیا ہے؟
خبر ایک انگریزی کے مقولے خود”فرام دی ہارسز مائوتھ” نکلی ہے اور روزنامہ مشرق پشاور کے 24 مئی کی اشاعت میں نیوز رپورٹر کے توسط سے سامنے آئی ہے جس میں ریڈیو پاکستان کے سٹیشن ڈائریکٹر کے حوالے سے ریڈیو پاکستان کے مالی بحران سے پردہ اٹھایا گیا ہے اور اس بات کی جانب اشارہ کیا گیا ہے کہ ریڈیو پاکستانی مالی خسارے کا شکار ہوگیا ہے جس کے باعث ملازمین کو تنخواہیں اور پنشن کی ادائیگی اپریل کے مہینے میں نہیں ہوسکی جبکہ عیدالاضحی پر بھی تنخواہوں اور پنشن کی ادائیگی بھی ممکن نہیں ہوسکے گی۔ یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف نے ملک بھر کے سرکاری ملازمین اور پنشنرز کو عیدالفطر سے پہلے تنخواہیں اور پنشن ادا کرنے کا حکم جاری کیا تھا جس پر ماسوائے ریڈیو پاکستان اور غالباً ایک آدھ اور ادارے کے عملدرآمد ہوگیا تھا لیکن ریڈیو ملازمین تب بھی محروم رہے تھے اور اب بھی ریڈیو پاکستان کے سٹیشن ڈائریکٹر کے بقول (خبر کے مطابق) عیدالاضحی پر بھی تنخواہوں اور پنشن کی ادائیگی مالی خسارے کے باعث ممکن دکھائی نہیں دیتی۔
آتش کدہ ہے سینہ مرا راز نہاں سے
اے وائے !اگر معرض اظہار میں آوے
دراصل یہ سارا معاملہ ہی ایک غلط سوچ کی بنیاد پر ہے یعنی خبر میں جو لفظ ”مالی خسارہ” استعمال کیا گیا ہے سارا کیا کرایا ہی اس کا ہے ریڈیو پاکستان کا شمار ان اداروں میں ہوتا ہے جو کسی مالی منفعت کے تحت قائم نہیں کئے گئے تھے بلکہ اس کے مقاصد میں انفارمیشن انٹرٹینمنٹ اینڈ ایجوکیشن بنیادی اہمیت کے طور پر شامل کئے گئے تھے عوام کو ملکی و بین الاقوامی حالات کے حوالے سے خبریں بہم پہنچانا ان کو تفریح مہیا کرنا اور بحیثیت ایک معاشرہ ان کی تربیت و تفہیم کا سامان کرنا ہی اس ادارے کی ذمہ داری تھی جبکہ ضرورت کے تحت اس ادارے نے ملک و قوم کی جو فکری رہنمائی کی خصوصاً پاک بھارت جنگوں کے دوران اس ادارے نے دشمن کے منفی پروپیگنڈے کا جس طرح کامیاب دفاع کیا دشمن کے حوصلے پست کئے قوم کے مورال کو بلند کیا وہ ہماری تاریخ کا ایک ایسا روشن باب ہے جس سے کسی بھی صورت انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ہوا مگر یہ کہ جب ریڈیو سیلون سے کمرشل اشتہاروں پر مبنی نشریات کا آغاز ہوا تو پاکستان میں بھی بیوروکریسی کے اندرایک سوچ پیدا ہوئی ارو ریڈیو پاکستان کے بھی بعض پرگراموں کو کمرشلائز کرنے کا تجربہ شروع کیا گیا اس کے بعد یہ تصور پختہ ہوتا گیا کہ ریڈیو کو مالی منفعت کا ادارہ بنادیا جائے اس دوران میں ٹی وی نشریات بھی شروع ہوچکی تھیں جہاں اشتہاری کمپنیوں نے کامیاب بزنس شروع کردیا تھا تاہم پالیسی تبدیلی کرنے والے بھول چکے تھے کہ ریڈیو پاکستان خالصتاً کوئی کمرشل ادارہ نہیں بلکہ ایسے اداروں میں سے ایک ہے جن سے دفاعی اداروں تعلیمی اداروں اور دیگر ایسے اداروں کی طرح کمائی کی نہ توقع کی جاسکتی ہے نہ ہی ان کو سرکاری سرپرستی کے دائرے سے باہر کیا جاسکتا ہے اور اسے کسی بھی طور مجبور نہیں کیا جاسکتا کہ وہ اپنے اخراجات کیلئے رقم خود ہی کمائے اور اپنے ملازمین پر خرچ کرے ایسا ہے تو پھر پی ٹی وی کو مالی خسارے سے بچانے کیلئے کیوں بجلی بلوں پر 35 روپے فی گھر ٹیکس عوام سے زبردستی وصول کیا جارہا ہے حالانکہ ریڈیو کے مقابلے میں ٹی وی اربوں کھربوں کماتا ہے اس وقت صورتحال یہ ہے کہ گزشتہ سال جون کے مہینے سے ریڈیو پنشنرز کو پنشن کی ادائیگی میں رکاوٹیں پیدا ہو رہی ہیں کبھی پنشن ملتی ہے کبھی تاریخ کا شکار ہوجاتی ہے مگر اب کی بار تو حد ہوگئی ہے کہ پنشنرز تو ایک طرف حاضر سروس ملازمین بھی عیدالفطر سے تنخواہوں اور پنشن سے محروم چلے آرہے ہیں اور اب بتایا جارہا ہے کہ ممکن ہے یہ سلسلہ عیدالاضحی تک برقرار رہے اس صورتحال سے سابقہ اور موجودہ ملازمین جن مشکلات سے دوچار ہیں وہ صرف متعلقہ لوگ ہی سمجھ سکتے ہیں۔ شنید ہے کہ اس صورتحال کی ذمہ داری جہاں وزارت اطلاعات وزارت خزانہ پر عائد ہوتی ہے وہاں ریڈیو کے اپنے اعلیٰ عہدیداروں کی غلط منصوبہ بندی بھی اس میں شامل ہے۔
یہ الگ بات سنائی نہیں دیتی ورنہ
اشک گرنے کی بھی آواز ہوا کرتی ہے

مزید پڑھیں:  بیرونی سرمایہ کاری ۔ مثبت پیشرفت