کچھ عرصہ سے حکام کی تحویل میں موجود کالعدم بی این اے (بلوچ نیشنل آرمی)کے گرفتار سربراہ گلزار امام شمبے کو میڈیا کے سامنے پیش کردیا گیا، گلزار امام نے اعتراف کیاکہ مسلح جدوجہد کا راستہ غلط تھا، امید ہے ریاست ماں کا کردار ادا کرتے ہوئے اصلاح کا موقع دے گی۔انہوں نے اپنے ساتھیوں کو پیغام دیا ہے کہ وہ واپسی کا راستہ اختیار کریں۔اخبارنویسوں کے سامنے انہوں نے اس امر کا اقرار کیا کہ وہ بلوچ قوم کے اکابرین سے ملاقات اور ان سے مباحثے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ بلوچستان کے حقوق کی جنگ صرف آئینی اور سیاسی طریقے سے ممکن ہے۔انہوں نے اس امر کا اظہار کیا ہے کہ انہوں نے ریاست سمجھے بغیر اس جنگ کا آغاز کیا انہوں نے جس راستے کا انتخاب کیا وہ غلط تھا کیوں کہ مسلح جدوجہد سے بلوچستان کے مسائل مزید گمبھیر ہوتے گئے، کچھ طاقتیں بلوچ قوتوں کوصرف ایک پریشر گروپ کے طور پر استعمال کرنا چاہتی ہیں جس سے نقصان صرف بلوچ قوم کا ہورہا ہے جس کی وجہ سے بلوچستان پستی کا شکار ہوگیا ہے۔انہوں نے سب کو مل کر بلوچستان کے مسائل حل کرنے کی دعوت دی۔ یہاں سرمایہ اور ترقی نہ ہونے کے برابر ہے۔بلوچستان کے ناراض عناصر اور غیر ملکی ہاتھوں میں کھیلنے والے بعض عاقبت نااندیش عناصر سی پیک اور گوادر پورٹ کی طرح کے اہمیت کے حامل منصوبوں کی بھی ان کی جانب سے نہ صرف مخالفت بلکہ مزاحمت کی گئی اب جبکہ ان کو اس امر کا احساس ہوگیا ہے اور انہوں نے اپنی گمراہ کن جدوجہد سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو ریاست کو بھی چاہئے کہ وہ ان کے ساتھ ناراض بچوں کو منانے جیسا عمل روا رکھے اور ان کو موقع دیا جائے کہ حکومتی نرمی اور ممکنہ عام معافی سے مستفیدہوں اور واپس آکر بلوچستان کے حقوق کے حصول کی جمہوری جدوجہد میں شامل ہوں۔بلوچستان سے ناانصافی اور بلوچ عوام کی محرومیاں کوئی کہانی نہیں حقیقت ہے بلوچ سرداروں اوراسلام آباد کی ملی بھگت کے باعث بلوچ عوام حقوق سے محروم چلے آرہے ہیں اور ان کو ان کے وسائل کا جائز حصہ بھی مل نہیں پاتا اب جبکہ معاملات اصلاح پذیری کا رخ اختیا ر کرتے نظر آئے ہیں تو ہر سطح پر نظر آنا چاہئے۔بلوچستان کی آبادی میں مردم شماری کے مطابق اضافہ ہوا ہے علاوہ ازیں بھی کئی وجوہات کی بناء پر بلوچستان کے عوام خصوصی رحم و کرم کے مستحق اور لاچار لوگ ہیں اب تک ان کے ساتھ جو کچھ ہوا اب سوائے اس کا ازالہ کرنے کی سنجیدہ مساعی کے علاوہ کوئی اور حل نہیں۔توقع کی جانی چاہئے کہ بلوچ عوام کے تحفظات دور کرنے کی طرف وہ ادارے بھی توجہ دیں گے جن سے آبادی کے ایک طبقے کو سخت شکایات رہی ہیں۔ان کا شکایات کا ازالہ کرکے ایک نئی ابتداء ہوسکتی ہے۔
