کیاایک اور میثاق جمہوریت کا وقت نہیں؟

گزشتہ عام انتخابات سے قبل معتوب مسلم لیگ (ن) کے ساتھ جو رویہ اپنایا گیا تھا اور اسے کمزور کرکے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کی راہ میںجو رکاوٹیں کھڑی کی گئی تھیں یہ کوئی پرانی بات نہیں اب آئندہ کے عام انتخابات میں وہی کچھ تحریک انصاف کے ساتھ ہوتا نظر آرہا ہے فرق صرف یہ ہے کہ جو پنچھی اشارے پر اڑے تھے اب وہ اشارے اور دبائو کے باعث واپسی کی راہ لے رہے ہیں اس حوالے سے تحریک انصاف اور مسلم لیگ )ن) کا کوئی موازنہ اس لئے نہیں کہ مسلم لیگ (ن) سابق صدر مشرف کے دور میں یہ صدمہ کامیابی سے سہہ چکی ہے اور اس کے ثابت قدمی کے ساتھ ہر طرح کے دبائو کا مقابلہ کرچکے ہیں دوسرے دور میں ان کا وہ تجربہ کام آیا اور تمام تر دبائو کے باوجود بھی مسلم لیگ (ن) پنجاب اسمبلی میں اکثریتی جماعت اور قومی اسمبلی میں بھی خاص تعداد میں نشستوں پر کامیابی حاصل کرکے خود کو سخت جاں ثابت کیا اور ایک مرحلہ ایسا بھی آیا کہ مسلم لیگ (ن) کے پاس اب پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت میں وزیراعظم کا عہدہ ہے اب ایک مرتبہ پھر تاریخ خود کو دہرا رہی ہے اور تحریک انصاف سے پرندوں کی اڑان بھرنے کا موسم ہے ۔فوجی تنصیبات پر حملوں سے تحریک انصا ف کے نظریاتی کارکنوں اورحامیوں میں شدید غم وغصہ ہے۔یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف سے اہم عہدیدارمستعفی ہونے کے اعلانات کررہے ہیں۔ معاملات آگے بڑھیں اور مزید حقائق سامنے آئیںتو پی ٹی آئی پرممکنہ طور پر پابندی بھی لگ سکتی ہے ۔ ان حالات میں آنے والے دن عمران خان کے لیے انتہائی سخت ہوسکتے ہیں ۔تحریک انصاف کی تشکیل کے وقت جو فارمولہ اپنایا گیا تھا اور اس کو برسر اقتدار لانے کے جو جتن کئے گئے تھے حالات و واقعات اب لوٹ پیچھے کی طرف اے گردش ایام توکی تصویر مثال پیش کرنے لگے ہیں۔تحریک انصاف کی قیادت کے جذباتی پن اور جوشیلے کارکنوں کی عاقبت نااندیشانہ حرکات کے بعد اس کے لئے حالات خود بخود بن گئے ہیں جس پیمانے اور سطح پر بلاامتیاز گرفتاریاں ہوئی ہیں ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ الزامات کے تحت اشرافیہ اور یہاںتک کہ اعلیٰ عسکری پس منظر رکھنے والے ملوث ملزمان سے بھی نرمی اور رعایت نہیں برتی گئی۔تحریک انصاف کی مقبولیت کے حوالے سے توئی کسی شک و شبے کی گنجائش نہیں لیکن ملکی سیاست میں عوام کی حمایت کو اکثریت میں بدلنے ا ور انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے گر بھی کم اہمیت کے حامل نہیں ہوا کرتے اس سے تحریک انصاف کی صفوں میں موجود کم ہی رہنما ئوں کو واقفیت ہوگی ورنہ 2018 سے قبل ان کی نشستوں کی تعداد شایداتنی محدود نہ ہوتی اب جو رہنما ہیں وہ بھی خزاں کے پتوں کی طرح ہیں جب بہار کا موسم آئے گا اس وقت ہی معلوم ہوسکے گا کہ ان پتوں نے وفا کی یایہ بھی خزاں رسیدہ پتوں کی طرف جھڑ کر زمین پر آگئے ہیں۔جن حالات سے آج پی ٹی آئی گزر رہی ہے ان حالات سے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن بھی گزرچکی ہیں پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے ان حالات سے سبق سیکھ کر میثاق جمہوریت کرلی اور ملکی سیاست استحکام اور خود مختاری کی طرف گامزن ہوگئی لیکن پھر تحریک انصاف کی صورت میں جس نئی جماعت کو اقتدار کے زینے پر لابٹھایا گیا اب چارہ دستوں نے ان کے ساتھ بھی وہی سلوک شروع کردیا ہے جو قبل ازیں محولہ دو جماعتیں بھگت چکی ہیں ان حالات میں کیا وہ وقت نہیں آیا کہ تحریک انصاف بھی اپنے رویئے میں تھوڑی سی تبدیلی لاکر سیاسی بات چیت کا ماحول پیدا کرے اور ایک اور میثاق جمہوریت پر دستخط کرکے ملک میں سیاسی مفاہمت اور سیاسی بالادستی کا آغاز کیا جائے۔ اس بارے کوئی دوسری رائے نہیں کہ نو مئی کے واقعات کی حمایت تو درکنار لفظی طور پر بھی اس کی کوئی توجہیہ پیش نہیں ہو سکتی ان حالات میں سوائے لاتعلقی مذمت اور علیحدگی اختیار کرنے کے حوالے سے فیصلوں ہی کی گنجائش رہ جاتی ہے تحریک انصاف میں جس قسم کے عناصر شامل کرکے انتخابی فتح حاصل کرلی گئی تھی دیکھا جائے تو ان عناصر کی اس جماعت سے کبھی وابستگی ہی نہ بنی تھی یا پھر حالات نے دیرینہ کارکنوں کو بھی مایوسی کے دہانے لا کھڑا کیا سیاسی جماعتوں میں توڑ پھوڑ اور جیتنے والے گھوڑوں اور ان کی پشت پر سوار چابک لگانے والوں کی برتری کا سلسلہ اگر یہیں رک جائے اور اس کے بعد سیاسی جماعتوں کے درمیان سیاسی میدان میں مقابلہ اور شفاف انتخابات ہوں تو ملک میں اس سیاسی انتشار کی کوکھ سے استحکام جنم لینے کی امید ہے اور اگر غلطیاں دہرانے کا سلسلہ جاری رہا تو پھر یکے بعد دیگرے کھیلے جانے والے اس اس کھیل کی آلودگی سے سیاست کبھی پاک نہ ہو گی اڑان بھرنے کی تیاری میں مصروف پرندوں نے جانا ہی ہوتا ہے اس آندھی کے تھمنے کے بعد جو رہ جائیں گے وہی تحریک انصاف کا حقیقی رہنما و کارکن اور اثاثہ ہوں گے۔

مزید پڑھیں:  روٹی کی قیمت دا گز دا میدان