رشوت دے کے چھوٹ جا۔۔۔

(طاہر رشید )کوہاٹ میں عمران خان کی گرفتاری کے بعد نو مئی کو ہوئی توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ کرنے والے پی ٹی آئی کے کارکنوں کی پکڑ دھکڑ جاری ہے۔ اب تک درجنوں گرفتار اور سینکڑوں کارکنوں کے خلاف انسداد دہشتگردی سمیت دیگر دفعات کے تحت مقدمے درج کئے جا چکے ہیں ۔پولیس کے پاس موجودفہرستوں سے نام نکالنے کیلئے پولیس کی جانب سے فی کارکن تین سے پندرہ ہزار روپے تک نرخ مقرر کیے گئے ہیںلیکن پیسے لینے کے باوجود ایک بار چھوڑ کر پولیس دوبارہ سے کارکنوں کو دھر لیتی ہے۔
ایسے میں بے یار و مددگار کارکن اپنی اعلیٰ قیادت کی جانب دیکھ رہے ہیں ۔ لیکن کوہاٹ کے "بدر منیر” کہلائے جانے والے سابق وزیر مملکت شہریار خان آفریدی اسلام آباد سے تین ایم پی او کے تحت گرفتار کرکے نیکسٹ سٹاپ اڈیالہ پہنچا دیے گئے۔ گو کہ کوہاٹ کے ہر مکتبہ فکر نے ان بیگم کی گرفتاری کی مذمّت کی اور ساتھ ہی مشورہ بھی دیا کہ ایسے اوکھے وقت میں سلامتی اپنے ہی گھر میں رہنے میں ہوتی ہے۔اپنے آپ کو "دبنگ” کہلوانے والے سابق صوبائی مشیر و رکن صوبائی اسمبلی ضیاء اللہ بنگش بھی نو مئی کے بعدسے غائب ہیں ۔کارکن پٹتے رہے گرفتار ہوتے رہے ان کے خلاف انسداد دہشتگردی کے پرچے کٹ گئے ۔ہنگاموں کے دوران دو کارکن جاں بحق ہونے کے بعد سابق رکن صوبائی اسمبلی نے لاشوں پر سیاست کرنے کا موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا ۔گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ کے لیے آئے تقریر کی جس میں خاص طور پر ایک بات پر زور دیا کہ "شہداء ” کا خون ضرور رنگ لائے گا اور وہ "حقیقی آزادی” حاصل کرکے ہی دم لیںگے۔
اس کے بعد حقیقی آزادی کا یہ "مجاہد” کس محاذ پر نکل گیا ۔پاکستان تحریک انصاف کے کارکن اس لئے بھی شکوک وشبہات کا شکار ہیں کہ سابق صوبائی وزیر قانون جنہیں اب کارکن تاحیات سابق صوبائی وزیر قانون کے نام سے یاد کرتے ہیں سمیت تینوں اراکین صوبائی وقومی اسمبلی محض تین ایم پی او کے تحت مطلوب تھے یا ہیں جبکہ عام کارکنوں کے خلاف انسداددہشتگردی تک کے مقدمے درج کر لئے گئے ہیں ۔ سابق صوبائی وزیر قانون کی اتنی جلدی رہائی بھی کارکنوں کے ذہنوں میں شکوک وشبہات پیدا کر رہی ہے۔ یہ بات بھی مشاہدہ میں آئی ہے کہ کارکنوں کو احتجاج پر آمادہ کرکے جناب بیماری کا بہانہ بنا کر روپوش ہوگئے تھے۔ دوسری جانب یہ افواہ بھی گردش کر رہی ہے کہ پرویز خٹک اگر تحریک انصاف چھوڑتے ہیں تو امتیاز شاہد قریشی کوہاٹ سے ان دو بندوں میں سے ایک ہیں جو پارٹی کو مشکل وقت میں چھوڑ جائیں گے۔

مزید پڑھیں:  عدلیہ میں مداخلت برداشت نہیں کی جائے گی، چیف جسٹس