ایبٹ آباد سے مشتاق غنی کی اڑان بھرنے کاامکان

(زاہد نواز جدون) 9مئی کی شر پسندی میں تھری ایم پی او کے تحت گرفتار پی ٹی آئی کے ضلعی صدر و سابق صوبائی وزیر الحاج قلندر خان لودھی کو پشاور ہائی کورٹ سرکٹ بنچ ایبٹ آباد نے ایک لاکھ روپے مچلکوں کے عوض رہائی کے احکامات جاری کئے جبکہ کیس کی آئندہ سماعت یکم جون مقرر کی گئی ہے ۔الحاج قلندر خان لودھی کو ایبٹ آبادپولیس نے 12مئی کو لودھی ہائوس سے گرفتار کر کے ہریپور جیل منتقل کر دیا تھا ۔ضلعی صدر کو شاہراہ ریشم بند کرنے سمیت اشتعال انگیزی پر گرفتار کیا گیا ۔رہائی کے احکامات کے بعد ایبٹ آباد پولیس کی بھاری نفری ہریپور جیل کے باہر پہنچ چکی ہے شنید ہے کہ قلندر لودھی کے جیل سے باہر آنے پر پھر انہیں گرفتار کر لیا جائے ۔
پی ٹی آئی راہنما وتحصیل میئر شجاع نبی کو بھی پشاور ہائی کورٹ سرکٹ بنچ ایبٹ آباد نے ایک لاکھ روپے مچلکوں کے عوض رہا کرنے کا حکم جاری کر دیااور کیس کی آئندہ سماعت یکم جون مقرر کر دی ہے ۔شجاع نبی کو ایبٹ آباد پولیس نے 9مئی کو فوارہ چوک بند کر کے لوگوں کو اشتعال دلانے پر تھری ایم پی او کے تحت 12مئی کو گرفتار کر کے ہریپور جیل منتقل کر دیا تھا ۔تحصیل میئر نے 9مئی کو چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی گرفتاری پر گھنٹوں فوارہ چوک بند کرائے رکھی۔
کشمیر ہائی وے اسلام آباد سے گرفتار ہونیوالے پی ٹی آئی راہنماو سابق ایم این اے ڈاکٹر اظہر جدون کو بھی تھری ایم پی او کے تحت گرفتار کر کے نا معلوم مقام پر منتقل کیا گیا ۔ڈاکٹر اظہر جدون پر تھانہ سنگجانی اسلام آباد میں مقدمہ درج ہوا ۔ رپورٹ کے مطابق ڈاکٹر اظہر جدون دیگر ساتھیوں کے ہمراہ جنہوں نے ہاتھوں میں پستول اور کلاشنکوف اور پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے جن پر اداروں کے مخالف نعرے تحریر تھے ۔ ان پر پولیس پر پیٹرول بم پتھر ائوکرکے پولیس وین کو جلانے کے الزامات بھی ہیں۔ڈاکٹر اظہر جدون کو اسلام آباد ہائی کورٹ سے رہائی کے احکامات ملے ۔ ڈاکٹر اظہر جدون اس دن سے لیکر آج تک روپوش ہیں اور موبائل بھی بند کیا ہوا ہے ۔
اسپیکر خیبر پختونخوا اسمبلی مشتاق احمد غنی کی پر اسرار خاموشی اور روپوشی پی ٹی آئی سے علیحدگی کے اشارے دینے لگی ۔ 1996ء میں پاکستان تحریک انصاف کے شروع کے دنوں میں پارٹی میں شمولیت اختیار کی ۔ 2002ء کے بلدیاتی الیکشن میں یونین کونسل کیہال اربن کے ناظم بنے جبکہ اسی سال ہونیوالے جنرل الیکشن میں تحریک انصاف کو خیر آباد کہہ کر مسلم لیگ (ق) میں شمولیت اختیار کر کے ایم پی اے بن گئے ۔جبکہ 2008ء کے الیکشن میں خود ناکام ہوئے اور اپنی اہلیہ کو مسلم لیگ (ق) کی خصوصی نشست پر ایم این اے بنوانے میں کامیاب رہے ۔2013ء کے الیکشن میں بڑھتی ہوئی تحریک انصاف کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے رابطے کئے لیکن شنوائی نہ ملنے پر آزاد حیثیت سے الیکشن میں حصہ لیا اور ایم پی اے بن گئے ۔خیبر پختونخوااسمبلی میں تحریک انصاف کو حکومت بنانے کیلئے آزاد امیدواروں کی ضرورت پڑی تو مشتاق احمد غنی سب سے آگے پائے گئے جس پر ان کی شرائط پر انہیں صوبائی وزیر ہائر ایجوکیشن اور صوبائی وزیر اطلاعات کے محکمے بھی ملے ۔جبکہ 2018ء میں ایک دفعہ پھر پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کر کے صوبائی حلقے کا ٹکٹ لینے میں کامیاب ہوگئے اور کامیابی کے بعدا سپیکر صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے ۔مشتاق احمد غنی پورے اقتدار میں پی ٹی آئی کی بجائے مقتدر حلقوں سے رابطے بڑھاتے رہے اور بات عمران خان تک جا پہنچی ۔ تمام تر ثبوتوں کے بعد عمران خان نے مشتاق احمد غنی سے ملنے سے صاف انکار کرتے ہوئے انہیں آئندہ صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ بھی نہ دینے کا فیصلہ کیا ہوا تھا کہ 9مئی والا واقعہ پیش آ گیا ۔ اس واقعہ میں بھی مشتاق احمد غنی کچھے کچھے رہے ۔ اور برائے نام ہی احتجاج میں شرکت کی ۔ 9مئی کو غائب جبکہ 10مئی کو فوارہ چوک احتجاج میں شرکت کی اور خطاب میں ورکروں کو اداروں کیخلاف اکسایا ۔اس دوران مشتاق احمد غنی پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی سے بھی رابطوں میں رہے ہیں اور ابھی بھی ہیں ۔ ایبٹ آباد پولیس نے ان کیخلاف تھری ایم پی او کے تحت مقدمہ درج کر کے ان کی گرفتاری کیلئے مختلف جگہوں پر چھاپے مارے ہیں لیکن گرفتاری ممکن نہیں ہوئی ۔
سابق وزیر اعلیٰ اقبال خان جدون کے بھتیجے اور سابق وفاقی وزیر امان اللہ خان جدون کے فرزند پی ٹی آئی کے سابق ایم این اے علی خان جدون جنہوں نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز 2013ء کے بلدیاتی الیکشن سے کیا ۔متنازع ضلع ناظم رہنے کے بعد 2018ء میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر سابق وزیر اعلیٰ و گورنر سردار مہتاب احمد خان عباسی کو شکست دیکر ایم این اے بنے ۔دھیمے لہجے کے مالک اور کم عمری کی وجہ سے قومی اسمبلی میں بھی نہ حلقہ کی بات کر سکے اور نہ ہی پارٹی کی نمائندگی کر سکے ۔ علی خان جدون 9مئی کو ایبٹ آباد میں تھے ہی نہیں ۔ پی ٹی آئی راہنماء ہونے کی وجہ سے ان پر بھی تھری ایم پی او کے تحت مقدمہ کا اندراج کیا گیا ۔روپوشی کی وجہ سے ان کی گرفتاری بھی نہیں ہوئی ۔ دلبرداشتہ علی خان جدون کسی بھی وقت سیاست کو خیر آباد کہہ کر بیرون ملک روانہ ہو سکتے ہیں ۔

مزید پڑھیں:  صوابی، بیٹے نے اپنے والد پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی