اسناد اور مہارت کی مسابقت

آج کاطالب علم اس مخمصے میں گم ہے کہ ان کا مستقبل کہاں ہے وہ اسے ڈگریوں میں ڈھونڈے یا پھر مہارتوں میں محنت سے وہ کامیابی سے ہمکنار ہو سکے گا مشکل یہ ہے کہ آج کے طالب علموں کے حاصل کردہ علم اور اسے عملی طور پر کام میں لانے میں کافی اور نمایاں فرق ہے جب طالب علم اپنے ارد گرد سے اس طرح کی باتیں سنتا ہے تو اسے اپنی ڈگری اور علم دونوں لاحاصل نظر آنے لگتے ہیں ہمارے تعلیمی اداروں میں جو نصاب پڑھایا جاتا ہے طالب علم جب عملی میدان میں جاتا ہے تو اس کا واسطہ ایک الگ ہی دنیا سے پڑتا ہے ہم ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں جہاں تعلیمی قابلیت سے ایک شخص اوراس کی سماجی حیثیت کا تعین ہوتا ہے ایک فرد کی وقعت اور معاشرتی حیثیت کا تعین ان کے تعلیمی ادارے اور ان کی اسناد سے کیا جاتا ہے بدقسمتی سے ہمارے ملک میں قابلیت کی قدر نہیں یہاں تک کہ مقابلے کے ا متحانات خواہ وہ جس درجے اور ملازمت کے لئے ہوں وہ شفاف نہیں ہوتے امیدواروں کے پرچوں پر مارکنگ پکی سیاہی کی بجائے پنسل سے کرا کر بعد میں من پسند امیدواروں کے لئے راہ ہموار کی جاتی ہے انٹرویو میں اچھے نمبر لینے کے لئے قابلیت کی بجائے پینل کو تگڑی سفارش کرنابہتر ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ مسابقتی امتحانات پاس کرنے والے بھی ہمارے مسائل کے حل کی کمزور اہلیت والے عہدوں پر ہونے کا خمیازہ پالیسی سازی اور استعداد پر سوالات کھڑے ہوتے ہیں اور قوم اس گھن چکر سے نہیں نکل پاتی یہی وجہ ہے کہ اب نامور اور قابل بیورو کریٹ سامنے نہیں آتے جہاں اعلیٰ ملازمتوں کے مسابقتی امتحان میں کامیابی کی شرح بہت کم رہ گئی ہو اور کامیاب قرار پانے والوں کی بھی اہلیت و استعداد کمزور ہو وہاں مزید کیا توقع رکھی جائے ۔بہرحال اس طرح کی صورتحال میں چند اسناد اور تعلیمی اخراجات کا حامل اپنے کیریئر کوجیسے تیسے اور غیر یقینی انداز میں آگے بڑھانا مجبوری ہو برسوں کی سختی اور بے تحاشہ تعلیمی اخراجات کا حاصل متصور ہوتا ہے اس عالم میں گریجویٹ اپنے خوابوں کے مستقبل کوپانے کے لئے خود کو بالکل بھی تیار نہیں پاتے یا کم از کم ان کو ایسا محسوس ضرور ہوتا ہے اس کی وجہ ظاہر ہے ہمارے تعلیمی نظام کی کمزوریاں تفاوت اور وہ تصورات ہی ہو سکتے ہیں جو ایک مسلسل جائزے سے سامنے آتے ہیں ہمارے طالب علموں کی تعلیم سے دوری محنت سے احتراز کی دیگر وجوہات کے ساتھ ساتھ ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ان کو وہ نہیں سکھایا جاتا جو وہ سیکھنا چاہتے ہیں ان سے اختلاف کرنا اس لئے بھی مشکل ہے کہ ان کی سوچ غیر حقیقت پسندانہ نہیں ہمارے تعلیمی نظام میں ابھی اس کا فیصلہ ہونا بھی باقی ہے کہ کیا ہے اور کیا ہونا چاہئے ۔ گزشتہ کئی برسوں جسے اگر زمانہ طالب علمی کے جامعہ کی تعلیم اوراس کے بعد اعلیٰ ملازمتوں کے مقابلے کی امتحان کی تیاری اس میں کامیابی کے مراحل اور حصول عہدہ تک کے ادوار پر محیط کیا جائے اور میں موجودہ حیثیت پہ جب پیچھیمڑ کر دیکھتی ہوں اور اپنے بچوں کی تعلیم و مستقبل کا جائزہ لیتی ہوں تو مجھے ذرا اطمینان نہیں ہوتا میرے لئے یہ تکلیف دہ امریہ ہے کہ آج کے طالب علموں کو دنیا کی ضرورتوں اور آئندہ کے چیلنجوں سے عہدہ برا ہونے کے لئے کم سے کم تیاری کرائی جاتی ہے بلکہ اس کی بجائے ان کو ایک خود ساختہ سانچے میں ڈھال کر ایسے روبوٹ تیار کئے جاتے ہیں جو نہ خود سے سوچ سکتے ہیں اور نہ ہی ان میں قوت فیصلہ کو ابھارا جاتا ہے یہ طرز عمل ان کو مہارت کے مواقع سے محروم کرنے کاباعث بن رہا ہے جو مکمل کیریئر
بنانے کے لئے ناگزیرہوتے ہیں حقیقت یہ ہے کہ آج کا طالب علم اپنے سکول کالج اور یونیورسٹی کے تعلیمی سالوں میں زیادہ سے زیادہ نمبر حاصل کرنے اور اسناد حاصل کرنے کی جدوجہد اور حصول پر مجبور ہے یہ سب کچھ جزوی طور پر ملازمت کے تقاضوں کو پورا کرتا ہے سوال یہ ہے کہ کیا اب وقت آگیا ہے کہ کیا اب ہم غیر رسمی تعلیم اور تعلیمی اسناد سے آگے بڑھ کر ایسی نسل تیار کرنے پر توجہ نہ دیں جو منفرد اختراع کار بن کر اور ٹیکنالوجی کے ابھار کے اس دور کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوں اور وہ مخصوص تعلیمی نظام کی بجائے زیادہ سے زیادہ بنیادی مہارتوں کے حامل ہوں جو اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کے لئے ضروری ہوں۔ اب ہمیں بچوں کو ایسا ماحول فراہم کرنے کی ضرورت ہے جوان کی انفرادی صلاحیتوں اور سیکھنے کے رجحانات کے ساتھ ہم آہنگ ہوں۔ ایک ایسا باضابطہ تعلیمی نظام اور ماحول تشکیل دیا جائے جہاں ہر طالب علم اپنی صلاحیتوں کا اندازہ لگا کر اس خواب کی تکمیل کے لئے تیار ہو جو خواب انہوں نے اپنی ذہنوں میں بن رکھا ہوتاہے اور وہ جو واقعی بننا چاہتے ہیں جو ان کے تخلیقی صلاحیتوں اور ان کی مستقبل
کی ضروریات سے ہم آہنگ ہو ہمارے نظام تعلیم کی خامی ہی یہ ہے کہ اس میں طالب علموں کی تجسس کو بوجھ سمجھ کر دبادینے کا رواج ہے اور ہمارے اساتذہ طالب علموں کی تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنا تو درکنار ان کو جانچ تک نہیں پاتے اور نہ ہی اس کی زحمت ان کو گوارا ہوتا ہے ۔ ہمارے طالب علموں کے پاس مشاہدہ اور اس حوالے سے رہنمائی لے کر ہم اس قسم کے فکری وسائل میں بڑے پیمانے پر تبدیلیوں کے دہانے پر ہیں جن کی دنیا کو مثبت طور پر ترقی کرتے رہنے کی ضرورت ہے بدقسمتی سے ہمارے ہاں اس کے برعکس اب بھی ملازمتوں کی منڈی میں جہاں اب بھی صرف ڈگریوں کی وقعت ہے اہمیت دی جاتی ہے اور یہی معیار اور شرط اول ہے ہمارے لئے اپنے تجربے کی فہرست سے ڈگریوں کو ثانوی ٹھہرانا ناممکن ہے حالانکہ کمپنیاں اب پرانے سکریننگ کے طریقوں کو ترک کرنے اور ملازمتی ضروریات کے مطابق امیدواروں کی جانچ کے لئے تیار ہیں اور اس بارے میں آگاہی بڑھتی جارہی ہے اور یہی ان کی ضرورت بھی ہے اب اس بارے میں آگاہی بڑھتی جارہی ہے کہ امیدوار اپنے ورک سٹیشنوں پر لانے والی مخصوص مہارت کس طرح کمپنی کی نچلی لائنوں کو ان کی ڈگریوں کے مقابلے میں بہتربنائے گی جس کی وجہ سے وہ ملازمت کے لئے تیار ہو سکتے ہیں جو آجر اور اجیر دونوں کے مفاد میں اور مطلوب ہے ۔ اس نئی سوچ کے باعث ڈگری سنڈروم آہستہ آہستہ ختم ہو رہا ہے ہمارے ہاں ٹیلنٹ کی کمی نہیں جسے اگر بروئے کار لایا جائے تو اجتماعی ترقی کے لئے بامقصد ثابت ہو سکتا ہے اس وقت ہم ایک متوازی تعلیمی کائنات کے ظہور کا مشاہدہ کر رہے ہیں جو مہارتوں کی پرورش کرتی ہے اور ایک نئی موثر روزگار کے قابل نسل تیار کرتی ہے آن لائن کورسز ‘ ڈیجیٹائزڈ لرننگ اور پرائیویٹ انٹرنشپس انفرادی دلچسپیوں اور جذبوں کی بنیاد پر مہارت جمع کرنے کے نئے ماحول کی راہ ہموار کر رہے ہیں تیزر فتار اور ٹیکنالوجی سے چلنے والی دنیا کی مہارت کو پورا کرنے کے لئے نئے ٹرف بنائے جارہے ہیں لیکن کیا ہم ابھی تک قابلیت اور کیریئر کی تعمیر کے ان نئے طریقوں کو اپنانے کے لئے تیار ہیں ان حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ محققین حکومتوں اورپالیسی سازوں کو ہماری ابھرتی ہوئی ضروریات کے مطابق نصاب پر نظر ثانی کرنی ہو گی ہمیں علم سیکھنے کے غیر رسمی طریقوں کے خلاف اپنی مزاحمت پر نظر ثانی کرنی چاہئے اور انہیں روایتی تعلیم کے طور پر اتنا ہی موثر قبول کرنا چاہئے اس کے بعد ہی کم عملی مہارتوں کے ساتھ سند یافتگی سے جاں چھڑانے کی راہ ہموار ہو گی۔

مزید دیکھیں :   مشرقیات