2 181

پرل ہاربر’ نائن الیون اور کووڈ19

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر چین پر کورونا وائرس پھیلانے کا الزام عائد کرتے ہوئے اسے امریکہ پر پرل ہاربر اور ورلڈ ٹریڈ سینٹر سے بڑا حملہ قرار دیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ٹرمپ چین کو اس حملے کا مرتکب قرار دیکر ماضی کے دوخوفناک حملوں کیساتھ جوڑ رہے ہیں۔ یہ خوفناک حملے اپنے اثرات کے لحاظ سے صرف اسی زمان ومکان تک محدود نہیں رہے تھے بلکہ ان حملوں کے ذمہ داروں کو نہ صرف خمیازہ بھگتنا پڑا تھا بلکہ اس کے بعد دنیا بڑی حد تک تبدیل ہو کر رہ گئی تھی۔ پرل ہاربر دوسری جنگ عظیم کا نقطۂ کھولاؤ اور ہیرو شیما اور ناگاساکی جیسے شہروں کے نشان عبرت بن جانے کا قصہ ہے۔1941میں ہوائی کے علاقے میں پرل ہاربر میں کھڑے امریکی جنگی بحری بیڑے پر جاپانی کمانڈوز نے صبح پھوٹتے ہی سخت حملہ کیا تھا۔ جاپانی کمانڈوز جہازوں کی چمنیوں سے اندر داخل ہوئے تھے اور ڈھائی ہزار کے قریب امریکیوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا تھا ۔اس وقت تک امریکہ دوسری جنگ عظیم میں بظاہر غیرجانبدار پوزیشن لئے ہوئے تھا۔ بے خبری میں دبوچے جانے کی اس کوشش پر مشتعل ہو کر امریکہ نے دوسری جنگ عظیم میں اتحادیوں کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا تھا جس کے بعد امریکہ نے جنگ کا پانسہ پلٹنے کیلئے جاپان کے دو شہروں پر ایٹم بم برسانے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس ایٹمی حملے نے جنگ کے اختتامی مرحلے کو قریب کر دیا اور یہ دنیا کی ایک نئے انداز سے تشکیل کا آغاز تھا۔ ہیرو شیما اور ناگاساکی کی داستان عبرت تاریخ اور نصاب کا حصہ بن کر رہ گئی اور آج تک لوگ اس تباہی کی مثالیں دیتے ہیں۔ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے حملے کو نائن الیون بھی کہا جاتا ہے۔2001 میں القاعدہ نامی تنظیم نے امریکی جہازوں کو اغوا کر کے امریکہ کے اہم مراکز پر گرانے کی کوشش کرکے عالمی منظر کو بدلنے کی کوشش کی تھی۔ اس حملے میں بھی ہزاروں افراد مارے گئے تھے اور امریکہ کی اقتصادی طاقت اور سرگرمی کا نشان ورلڈ ٹریڈ سینٹر آن واحد میں ملبے کا ڈھیر بن گیا تھا۔ اس واقعے کو دوسرے روز ہی امریکی اخبارات نے پرل ہاربر سے زیادہ ذلت آمیز لکھا تھا۔ امریکہ نے اس واقعے کے ردعمل میں دنیا کے ان تمام ملکوں کو نشان عبرت بنانے کا اعلان کیا تھا جو کسی بھی انداز سے اس میں ملوث پائے گئے افغانستان میں امریکہ کا حملہ اس ردعمل کا پہلا مظاہرہ تھا۔ پھر یہی جنگ پاکستان تک پھیلا دی گئی اور مشرق وسطیٰ میں عراق اسی لپیٹ میں آگیا۔ یہ آگ عراق تک محدود نہیں رہی بلکہ مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک اس کی زد میں آگئے اور عتاب وعقوبت کاجو دفتر نائن الیون کے بعد سے کھلا تھا، دوعشرے گزرنے کے بعد بھی کھلا پڑا ہے اور مشرق وسطیٰ سمیت کئی ممالک اسی کی قیمت چکا رہے ہیں۔ امریکہ نے نائن الیون کے بعد اپنا ورلڈ آرڈر نافذ کرنے کی بھرپور کوشش کی اور کہیں وہ اس مقصد میں کامیاب رہا اور کہیں مزاحمت کے باعث اس کے قدم آگے نہ بڑھ سکے۔ نائن الیون کے بعد ہزاروں افراد مارے جا چکے ہیں مگر یہ خونیں کھیل ختم نہیں ہو رہا۔ اب جب سے کورونا نمودار ہوا ہے یہ امریکہ اور چین کے درمیان جواب اور جواب الجواب کا موضوع بن کر رہ گیا ہے۔ چین نے اسے امریکی تخلیق قرار دیا اور امریکہ اسے چین کی کارستانی قرار دے رہا ہے۔ ٹرمپ نے معاملے کی سنگینی کو مزید واضح کرنے کیلئے اسے پرل ہاربر اور نائن الیون سے زیادہ بڑا حملہ قرار دیا ہے جس کے بعد کئی سوالات پیدا ہونے لگے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کورونا بحران ختم ہونے کے بعد بھی اس کے معاشی، سیاسی اور سماجی اثرات قائم رہیں گے اور دنیا کو ایک خطرے کے احساس کے تحت اپنے معاملات اور معمولات کو ایک نئے انداز سے ترتیب دینا ہوگا۔ انہی میں ایک معاملہ یہ بھی ہے کہ امریکہ اور چین کے درمیان مسابقت اور خلیج میں مزید اضافہ ہوگا۔ کورونا نے دنیا کے دوسرے ملکوں کی طرح امریکہ کی معیشت کو بھی ہلا کر رکھ دیا ہے اور ہزاروں افراد بیروزگار ہونے کے باعث ٹرمپ کی ذاتی اور سیاسی مشکلات بڑھ گئی ہیں وہ اگلے انتخابات میں افغان جنگ کے خاتمے جیسی چند بڑی اور نمائشی کامیابیاں دکھا کر معرکہ جیتنے کی منصوبہ بندی کئے بیٹھے تھے کہ کورونا اس انتخابی رنگ میں بھنگ ڈال گیا۔ کورونا کے اثرات سے نمٹنا، عام آدمی کے معاشی حالات کو سدھارنا ایک نئی مشکل ہو کر رہ گئی ہے۔ اب ٹرمپ نے اسے پرل ہاربر پر جاپانی اور ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر القاعدہ کے حملے سے بڑا قرار دیا تو اس کا مطلب ہے کہ امریکہ ماضی کے ان دوحملوں کی طرح اپنی زخمی انا کی تسکین کی خاطر انتقام لینے کا راستہ اپنائے گا۔ اگر اسے یہ یقین ہے کہ کورونا چین کی لیبارٹری میں تیار ہوا ہے اور اسے امریکہ کیخلاف حیاتیاتی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا ہے تو پھر وہ اس کا بدلہ لینے کیلئے پرل ہاربر کے ردعمل کی طرح ایک اور ”ہیرو شیما” یا نائن الیون کے ردعمل کی طرح ایک اور ”تورا بورا” سجائے گا۔ اس انتقامی سوچ کا مطلب چین کا گھیراؤ تیز کرنا اور اس کی معیشت اور فوجی قوت کو توڑنا ہے۔ جنوبی چین کے سمندروں میں پہلے سے دونوں کے درمیان طاقت اور بالادستی کا جو کھیل چل رہا ہے وہ کسی تصادم کی شکل بھی اختیار کر سکتا ہے۔ امریکہ کی طاقت اور بڑائی کا ایک نفسیاتی تاثر کورونا کے باعث شروع ہونے والی بے بسی نے اسی طرح چکنا چور کر دیا ہے جس طرح نائن الیون اور پرل ہاربر کے حملوں نے امریکہ کا عالمی سحر توڑ کر رکھ دیا تھا۔ کورونا کو بھی اگر امریکی اسی زاوئیے سے دیکھنے لگے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ وہ اس تاثر کو بدلنے کیلئے کوئی بڑا کھیل شروع کر سکتے ہیں۔ یہ صرف امریکہ اور چین کیلئے ہی نہیں پوری دنیا کیلئے ایک خطرناک موڑ اور مرحلہ ہوگا۔

مزید پڑھیں:  موت کا کنواں