4 83

مرنے والا جانے کب کا بھوکا لگتا ہے

”معیشت ضروری ہے یا انسانی زندگی؟” بڑا عجیب سوال تھا جو ہم نے وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر کی زبان سے اس وقت سنا جب وہ میڈیا کو بتا رہے تھے کہ ہم نے ہفتہ 9مئی سے چھوٹی مارکیٹیں اور محلے کی دکانیں کھولنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ”پہلے انڈہ پیدا ہوا یا مرغی” قسم کے اس عجیب سے سوال نے نہ صرف ہمیں چکرا کے رکھ دیا بلکہ پوری دنیا بالخصوص امریکہ والوں کی اس بے چارگی کو ہمارے سامنے رکھ دیا جو مدت ہوئی اس گتھی کو سلجھا نہیں پار ہے۔ اگر یہی سوال مجھ جیسے ان پڑھ، موٹی عقل والے یا سطحی سی علمیت کے مالک سے پوچھا جاتا تو ہم سیدھے سادے لفظوں میں اتنا ہی بتا سکتے کہ معیشت اور زندگی کے درمیان جسم اور روح کا رشتہ ہے۔ اگر روپیہ کو ‘روح پہیہ’ یا ‘روح پیا’ کہا جائے تو شائد غلط نہ ہو اور نہ ہی روپیہ یا ‘کرنسی’ کے وہ معنی اور مفہوم پنہاں رہ سکیں جو اس لفظ کی کوکھ سے جنم لیکر اس وقت اپنا اثر دکھاتے ہیں، جب کسی محنت کش مزدور اور دیہاڑی پر کام کرنے والے کی ہتھیلی پر پہنچ کر اس کے مرجھائے ہوئے چہرے کی کھلکھلاہٹ کا باعث بنتے ہیں۔ روزی روٹی کمانے والے صرف اس لئے محنت نہیں کرتے کہ انہوں نے اپنا اور اپنے گھر کے دیگر افراد کے پیٹ کا دوزخ بھرنا ہوتا ہے، وہ زندہ رہنے کیلئے اس کی بہت سی قیمت ادا کرتے رہتے ہیں، وہ بچوں کی تعلیم کا خرچ برداشت کرتے ہیں، مکان کا کرایہ بھی دینا ہوتا ہے، یوٹیلیٹی بل بھی ادا کرنے ہوتے ہیں، علاج معالجہ غم بھی ہوتا اور ہر قسم کے بہت سے بکھیڑوں سے نبردآزما رہنے کے اخراجات برداشت کرنا رزق حلال کمانے والوں کی ترجیحات میں شامل ہوتا ہے۔ وہ یہ سب کام اپنی کمزور مالی حالت سے مکمل نہیں کر سکتے، کسی نے ایسے ہی تو نہیں کہہ دیا کہ ‘بہن کرے نہ بھیا جو کرے روپیہ’ کہنے والے تو یہاں تک کہہ گئے ہیں کہ ”اے زر تو خدا نیست و لیکن مشکل کشا، وقاضی الحاجاتی” ایک حوالہ کے مطابق پاکستان میں 26فروری کو کرونا کا پہلا مریض سامنے آیا اور 13مارچ تک ان کی تعداد 26ہو چکی تھی، اس طرح بڑی تیزی سے پھیل کر اہل وطن کو لقمہ اجل بنانے والی اس وباء کیخلاف ملکی قیادت کو کچھ نہ کچھ کرنا ہی تھا، جس کا واحد حل بہت بڑے لاک ڈاؤن کی صورت میں سامنے آیا، لاک ڈاؤن نے رواں دواں زندگی کو کس قدر نقصان پہنچایا، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں، وہ لوگ جو ہر صبح بیدار ہوکر اپنے کام کاج کیلئے گھروں سے نکلا کرتے تھے، گھروں ہی میں مقید ہوکر رہ گئے، لاک ڈاؤن کے سبب ہماری گلیوں اور بازاروں میں سناٹا چھا گیا، ہر گاڑی کا پہیہ رک گیا، ہر چہرے پر خوف کی پرچھائیاں عود کرآئیں اور ہر کسی کے ذہن پر بھوکا مرجانے کا خوف طاری ہوگیا، لوگ بنکوں سے رقمیں نکال کر اپنی تجوریوں میں بھرنے لگے اور یوں دن بدن معیشت زبوں حالی کا شکار ہوکر ہماری بدحواسیوں کا منہ چڑانے لگی، ایک طرف ہم کرونا کے ہاتھوں بے اجلی موت کا شکار ہونے والوں کا ماتم کرتے رہے تو دوسری جانب معیشت کی بدحالی کی خبریں ہمارے دلوں کو چھوٹا کرتی رہیں، بڑے بڑے تاجر اور صنعتکار ہی نہیں چھوٹے دکاندار بھی لاک ڈاؤن کے عذاب کو کرونا سے بڑھ کر عذاب سمجھنے لگے، نجی تعلیمی اداروں والے، نجی ہسپتال اور میڈیکل سنٹروں کے مالکان اور ان کے ہاں کام کرنے والا عملہ، لاریوں بسوں کے اڈے اور ٹرانسپورٹ ایجنسیاں، سب ہی ہاتھ پر ہاتھ دھر کر اپنے گھروں میں دبک کر بیٹھے رہ گئے، یہ سب کرونا کے خوف اور اس خوف کا چرچا کرنے والوں کی وجہ سے ہوا، کچھ لینے کیلئے کچھ دینا پڑتا ہے، ایک طرف تو ہم لوگوں کو ‘کرونا سے ڈرنا نہیں، اس سے لڑنا ہے، کا درس دیتے رہے، لیکن دوسری جانب ہم لوگوں کو اپنے اپنے گھروں میں مقید یا نظربند رہنے کی تلقین کرتے رہے، یوں ہماری معیشت بیٹھ نہ جاتی تو اور کیا ہوتا، کرونا کے وباء پھیلنے کے دوران ہمیں بہت جلد اس بات کا احساس ہوگیا کہ معیشت زندگی ہے اور زندگی معیشت کے دم قدم سے ہے، ہمارا ملک قرضوں کے بل بوتے پر مستعار زندگی گزار رہا تھا
بحرحیات سے یوں سفینہ گزر گیا
کھا کھا کے قرض سارا مہینہ گزر گیا
ہماری معیشت پہلے ہی قرضوں کے بوجھ تلے دفن تھی، رہی سہی کسر کرونا کی وباء نے پوری کردی اور جس طرح کرونا کی وباء پھیلنے میں دیر نہیں کرتی اس طرح ہمیں اس بات کا بہت جلد احساس ہوگیا کہ رواں دواں زندگی کو اپنی ڈگر سے ہٹانے سے ملک اور قوم کو کس قدر نقصان ہوا ہے اور حکومت کی جانب سے اس ہی نقصان کے ازالہ کیلئے جزوی طور پر لاک ڈاؤن میں کمی کرنے کا اعلان کیا گیا، اے کاش ہم کوئی ایسی حکمت عملی اختیار کر سکتے کہ سانپ بھی مرجاتا اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹتی۔ مرگ یا موت کو خاطر میں نہ لانے والے بے خطر کہہ گئے ہیں کہ
کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مرجاؤں گا
میں تو دریا ہوں سمندر میں اُتر جاؤں گا
احمد ندیم قاسمی کے اس وژن کا حرف حرف ان کی ذہنی تونگری کی گواہی دے رہا ہے جبکہ کرونا کے خوف سے اپنی معیشت کو داؤ پر لگا دینا فاقوں کو جنم دیتا ہے جو چیخ چیخ کر کہہ اُٹھتے ہیں کہ
یارو اس کی قبر میں دو روٹی بھی رکھ دینا
مرنے والا جانے کب کا بھوکا لگتا ہے

مزید پڑھیں:  قول وفعل کا تضاد