انصاف کے تقاضے

قانون اور انصاف کے کچھ تقاضے ہوتے ہیں جن پر عمل کرنے ہی سے معاشرے میں انصاف کا بولا بالا کیا جا سکتا ہے، مشہور مقولہ ہے کہ ججز نہیں ان کے فیصلے بولتے ہیں، بدقسمتی سے ہمارے ہاں کی عدالتی تاریخ میں ایسے واقعات بھی موجود ہیں جن پر خود انصاف کو شرمسار ہونا پڑتا ہے، اس ضمن میں قیام پاکستان کے بعد کے ابتدائی دور میں مولوی تمیز الدین کیس کے فیصلے سے لے کر حالیہ دور تک کے بعض فیصلوں پر سوالیہ نشان خود عدلیہ کیلئے تشویش کے زمرے میں آتے ہیں مگر حیرت اس بات یر ہے کہ ان غلط فیصلوں سے جن کی وجہ سے ہمارا پورا نظام ہی منفی رویوں کی نذر ہوچکا ہے رجوع کرکے اپنی غلطیوں کو تسلیم کرکے انہیں ”بعد از خرابئی بسیار ہی سہی” درست کرنے کی اخلاقی جرأت کہیں بھی دکھائی نہیں دیتی بس لے دے کر ایک ذوالفقارعلی بھٹو کے عدالتی قتل کا مبینہ فیصلہ ہی ہے جسے بطور ریفرنس کسی بھی مقدمے میں شامل کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی بلکہ اس کا ذکر تک نہیں ہونے دیا جاتا، اس سے واضح ہوتا ہے کہ عدلیہ اس فیصلے کو فکری طور پر تو غلطی تسلیم کرچکی ہے تاہم اسے باعث شرمندگی مانتے ہوئے اس سے جان چھڑانے ہی میں عافیت نظر آتی ہے، قابل افسوس امر یہ ہے کہ اس کے باوجود ”کسی زعم میں آکر” یہ سلسلہ رکنے کا نام نہیں لیتا۔ سابقہ حکمرانوں کے حوالے سے عدالتوں کی مبینہ سہولت کاری ہو یا تین بار کے وزیراعظم نواز شریف کو اداروں کی شہہ پر اپنے ہی بیٹے سے تنخواہ نہ لینے کے ”جرم” میں نااہل قرار دینے کا فیصلہ ہو سب پر سوالیہ نشان ثبت ہو رہے ہیں جبکہ سابق وزیراعظم عمران خان کو مسلسل قانون اور انصاف کے تقاضوں کے برعکس انصاف کا مبینہ خون کر کے فائدہ پہنچانا نظام انصاف کی دھجیاں اڑانے کے مترادف قرار دیتے ہوئے بھی لاتعداد سوال اٹھائے جا رہے ہیں، اس ضمن میں جو آڈیو لیکس سامنے آرہی ہیںان کی تحقیقات کیلئے وفاقی حکومت نے جو انکوائری کمیشن سپریم کورٹ ہی کے سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں قائم کیا جس کے پہلے ہی اجلاس میں کمیشن کے سربراہ نے اگرچہ واضح کر دیا تھا کہ اس کمیشن کا مقصد کسی بھی جج کے خلاف کارروائی کرنا نہیں بلکہ صرف حقائق تک پہنچنا ہے، اس حوالے سے انہوں نے کچھ رہنما اصول بھی بنالئے تھے لیکن اس کمیشن کے خلاف ایک جانب تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے عدالت سے رجوع کیا حالانکہ ان کا اس کمیشن سے اصولی طور پر کوئی لینا دینا نہیں تھا تو بعض دیگر افراد بھی مبینہ طور پر عدلیہ ہی کے بعض کرداروں کے اکسانے پر کمیشن کے خلاف درخواستیں لے کر سامنے آئے اور کمیشن کو چیلنج کر دیا جس پر چیف جسٹس نے فوری طور پر اس حوالے سے بنچ تشکیل کرکے اس کی شنوائی کیلئے تاریخ مقرر کردی، چونکہ آڈیو لیکس کے حوالے سے خود چیف جسٹس کی خوشدامن کا نام بھی آ رہا ہے اور جنہیں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ والے کمیشن نے نوٹس بھی جاری کردیا تھا اس لئے اس صورتحال سے بچنے کیلئے چیف جسٹس نے ایک لمحہ ضائع کئے بناء آنے والی درخواستوں پر بنچ بنا لیا اور پہلی ہی شنوائی میں جسٹس فائز عیسیٰ کی سربراہی میں قائم کمیشن کو کام سے روکتے ہوئے اگلی شنوائی کیلئے بھی31 مئی کی تاریخ مقرر کردی، یہ صورتحال آئین اور قانون کے تقاضوں پر کہاں تک پورا اترتی ہے اس ضمن میں خود جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کئی سوال اٹھا دیئے ہیں، انہوں نے کہا ہے کہ بغیر نوٹس کمیشن کیسے معطل کیا جا سکتا ہے، قواعد کے مطابق فریقین کو سن کر فیصلہ کیاجاتا ہے، انہوں نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ کیا انہیں اس حوالے سے نوٹس ارسال کیا کیا گیا تھا جس کا جواب نفی میں آیا، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اور بھی اہم قانونی اور آئینی نکات سامنے لاکر چیف جسٹس کے کردار پر بحث کی اور یہ کہا کہ ججز کی باری آئی تو سٹے آرڈر آگیا، آڈیوز کی تحقیقات تو ہونی چاہئے، کیا جج کو پیسے دینے اور مرضی کے فیصلے کی بات پرائیویسی میں آئے گی؟ کیا سڑکوں پر لگے سی سی ٹی وی کیمرے بھی پرائیویسی کے خلاف ہیں، انکوائری کمیشن کو سنے بغیر ہی پانچ رکنی بنچ نے فیصلہ جاری کردیا، تحقیقات سے پتہ چلے گا، آڈیوز اصلی ہیں یا نقلی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے اٹھائے گئے سوالات نے چیف جسٹس کے مبینہ کنڈکٹ پر ایک بار پھر سوال اٹھا دیئے ہیں جبکہ اس سے پہلے بھی ”ہم خیال ججوں” کی ایک ٹرم ہماری عدلیہ کے کردار کے حوالے سے ایک عرصے سے موضوع بحث ہے اس ضمن میں ایک سابق چیف جسٹس کے کردار پر بھی سوالات اٹھتے رہتے ہیں اور سوشل میڈیا پر ان کے حوالے سے یہ دعوے بھی مبینہ طور پر سامنے آتے رہتے ہیں کہ وہ سابق وزیراعظم عمران خان کے حق میں عدلیہ کو مینیج کررہے ہیں کیونکہ ان کے ساتھ یہ وعدہ کیا گیا ہے کہ انہیں صدر مملکت بنایا جاسکتا ہے، اسی طرح موجودہ چیف جسٹس کے ساتھ بھی مبینہ طور پر یہ وعدہ کیا گیا ہے کہ انہیں تین سال کی توسیع دے کر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو چیف جسٹس بننے سے روکا جائے گا جس کے بعد مزید دو ہم خیال ججوں کا نمبر لگ سکتا ہے، ان تمام افواہوں کو اگر ایک طرف بھی رکھا جائے تب بھی یہ بات تو واضح ہے کہ انکوائری کمیشن کو معطل کرنے کا مقصد قریبی عزیزوں کو تحقیقات کی زد میں آنے سے بچانا ہی مقصود ہے، اگر واقعی ایسا ہی ہے تو یہ آئین اور قانون کے تقاضوں کے بالکل خلاف ہے اور آئین میں ایسی کوئی شرط بھی نہیں جس کے تحت حکومت اگر کوئی تحقیقاتی کمیشن قائم کرنا چاہے تو اس کیلئے چیف جسٹس کے ساتھ مشاورت لازمی ہے، صورتحال اب اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ عدلیہ کے اندر تقسیم بالکل واضح نظر آتی ہے جس کی ذمہ داری اگر آج نہ کی جاسکے تو آنے والے دور کا مورخ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کردے گا اور اگر اس صورتحال میں حکومت نے انٹیلی جنس اداروں پر مبنی تحقیقاتی کمیشن بناکر تحقیقات کا فیصلہ کرلیا تو اسے کون اور کیسے روک سکے گا؟

مزید پڑھیں:  بھارت کا مستقبل امریکہ کی نظر میں