آگے آگے دیکھئے ہو تا ہے کیا ؟

اب یہ کوئی راکٹ سائنس تو ہے نہیں جس کے لئے ڈاکٹر عبد القدیر خان ، ڈاکٹر ثمرمبارک مند یا پھر ان سے قائم کئے ہوئے ادارے سے وابستہ دیگر ماہرین سے رجوع کیا جائے ، یہ تو دو جمع دو اور اس حوالے سے گزشتہ سالوں کے تجربات کے نتائج پر ذرا سی توجہ دینے سے پورا کھیل کھل کر سامنے آجاتا ہے’ زیادہ دور جانے کی ضرورت بھی نہیں ، ہم نے اپنے کالم میں جو گزشتہ ماہ اپریل کی29 تاریخ یعنی آج سے پورے ایک ماہ پہلے شائع ہوا تھا اور آج جب یہ کالم تحریر کیا جا رہا ہے تو مئی کی29 تاریخ ہے، اپنے تجربے کی بناء پر کہا تھا کے بجٹ کا سیزن شروع ہو چکا ہے اور اس وقت جو خبریں سرکاری ملازمین اور پنشنرز کی تنخواہوں اور پنشن کے حوالے سے سے شائع ہوئی ہیں ان کو” حسب سابق فلر قرار دے کر متعلقہ لو گوں کے گھر خوش ہونے کی کیفیت کو ایک ”ٹریپ”سے تشبیہ دی تھی، اور واضح کیا تھا کہ بجٹ کے اعلان تک ہندسوں کا یہ کھیل تھرمامیٹر ‘ بیرومیٹر کے پارے کی طرح کبھی اوپر کبھی نیچے آجا کر بالآخر پندرہ اور دس فیصدپر ٹک کرفائنل ہو جائے گا ، اور ہمارے خدشات کچھ ایسے غلط بھی نہیں تھے یعنی چار روز پہلے ایک اور خبر نے ایک مہینے قبل والی خبر کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے، کہ مہینہ پہلے تنخواہوں میں50 فیصد اور پنشن میںبیس فیصد اضافے کی ”افواہ” چھوڑی گئی تھی، جس پر یارلوگوں نے بغلیں بجاتے ہوئے تنخواہ اور پنشن میں سو فیصد اضافے کی ڈیمانڈ شروع کردی تھی حالانکہ سرکاری فلر اور حاضر و سابق ملازمین کے مطالبات پر ہم برسوں کے تجربات کی بناء پر ہنس تو نہیں البتہ مسکرا ضرور رہے تھے اور بالاخر وہی ہوا جس کی پیشگوئی ہم نے کی تھی یعنی پچاس فیصد اور بیس فیصد کے ہندسوں کی خوش کن عمارتیں ایک اور خبر کی آندھی سے دھڑام سے ڈھے گئیں’ یعنی نئی خبر میں ہندسوں کو
زوال سے گزار کر تنخواہوں میں 20 اور پنشن میں 15 فیصد اضافے کی بات کی جانے لگی ، اب ہم اس پر بھی یقین کی سرحدوں کوچھونے کو تیار نہیں ہیں کیونکہ ابھی بجٹ پیش ہونے میں6 دن باقی ہیں یعنی ساتویں دن(6جون)کو بجٹ پیش ہوگا تو اصل صورتحال واضح ہوگی’ جبکہ اس سے پہلے آج دم تحریر (29 مئی)کو جو ایک اور خبر سامنے آئی ہے اس نے تو ملازمین کے ہاتھوں کے توتے(طوطے)اڑا دیتے ہیں یعنی سرکاری ملازمین سے80 ہزار روپے تک ٹیکس کی کٹوتی شروع کرنے کا اعلان سامنے آیا ہے، گریڈ ایک سے گریڈ 6 تک کے ملازمین اس ٹیکس سے مستثنیٰ ہوں گے اور 7 سے 22 تک کے ملازمین سے گریڈ وائز ایک ہزار سے بتدریج 80 ہزار روپے وصول کئے جائیں گے ‘ اس پر ایک پرانی ہندوستانی فلم کا ایک ڈائیلاگ یاد آگیا ہے جس میں ایک نوسرباز لوگوں کو کچھ رقم دیتا ہے اور پھر تگڑم بازی سے ان کا سارا مال ہتھیا لیتا ہے اور اپنے ساتھی سے کہتا ہے یہ ہے بزنس جس میں اِدھر کا مال اُدھر اور اُدھر کا سب مال اِدھرمعاف کیجئے گا ہم سرکار پرایسا کوئی الزام نہیں لگا رہے بس ذرا حساب کتاب کی بات کر رہے ہیں ‘ جس پر ایک لطیفہ یاد آگیا ہے ‘ کہ ایک طالب علم نے اپنے استاد سے پوچھا ‘ سر لوگ اردو اور انگلش میں بات کرتے ہیں ‘ حساب میں کیوں نہیں کرتے ؟ استاد نے جواب دیا ‘ چار سو بیس کی اولاد ‘ زیادہ تین پانچ مت کر ‘ نو دو گیارہ ہو جا ‘ ورنہ پانچ سات میں دھر دوں گا ‘چھ کے چھتیس نظر آئیں گے ‘ اور بتیس کے بتیس باہر آجائیں گے ۔ طالب علم نے گھبرا کر کہا ‘ سر جی اردو اور انگلش ہی ٹھیک ہے ‘حساب واقعی مشکل مضمون ہے ‘ حساب میں تو دور دور تک عزت نظر نہیں آتی ‘ اب یہ جوسرکار والا مدار نے تنخواہوں اور پنشن میں اضافے کے فلر چھوڑنا شروع کئے ہیں تو ان پرمیر تقی میر کے انداز میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ
راہ دور عشق میں روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟
مقصد بالکل واضح ہے کہ تنخواہوں میں اضافے سے پہلے ہی(شکر ہے پنشن والوں کو معاف کر دیا گیا ہے) سرکار نے 80 ہزار روپے تک کی کٹوتی شروع کر دی ہے ‘ اس کے بعد اگر ان کی تنخواہوں میں اضافہ ہوبھی جائے تو اس کا کتنا فائدہ ہوگا ‘ دیکھئے اس پر سرکاری ملازمین کا ردعمل کیا ہوتا ہے ‘ یعنی وہ احتجاج کرتے ہیں یا پھر اس بادشاہ کے عوام کی طرح پل پر سے گزرنے کے لئے نہ صرف ٹول ٹیکس بھی دیتے ہیں اور ساتھ ہی سر پر ایک جوتی بھی پڑواتے ہیں ‘ یعنی سو پیاز اور 90 جوتے(سو پیازاور سو جوتے غلط ہے) بھی کھاتے ہیں ‘ اور جہاں تک اعداد و شمار کا تعلق ہے تو ہم بار ہا لکھ چکے ہیں کہ سرکاری ملازمین پر تو ہر سال تنخواہوں میں اضافے کا پھر بھی کچھ نہ کچھ اثر پڑتا ہے کیونکہ ا ن کی تنخواہوں میں اضافے سے دیگر الائونسز بھی پرسنٹیج کے حساب سے بڑھ جاتے ہیں اور وہ مہنگائی سے نمٹنے میں کسی حد تک کامیاب ہو جاتے ہیں تاہم جہاں تک پنشنرز کا تعلق ہے تو گزشتہ کئی سال سے (جب سے پاکستان کی معیشت کا براحال ہے اور ڈالر کے مقابلے میں روپے کی بے قدری نے عوام کا جینا حرام کر رکھا ہے)پنشنرز کی پنشن کا ہندسہ تو اوپر جارہا ہے یعنی دس فیصد کے حساب سے ہر سال بڑھ جاتا ہے مگر قدر کے حساب سے زوال پذیر ہو رہا ہے یعنی
لائی بے قدراں نال یاری
تے ٹٹ گئی تڑق کرکے
گویا پنشنرزآج سے تقریباً چھ سات سال پہلے جتنی پنشن حاصل کرتے تھے(ہندسہ کم) اور اس میں بھی کچھ نہ کچھ گزارا ہو جاتا تھا ‘ مگر آج جتنی پنشن(ہندسہ زیادہ) وہ لیتے ہیں ان برسوں میں مہنگائی کی شرح میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جو ہوشرباء اضافہ ادارہ شماریات جاری کرتا ہے ‘ اس سے چھ سات سال پہلے والی پنشن میں مسلسل کمی ہو رہی ہے ‘ گویا بہ الفاظ دیگر پنشنرز پر(ڈاکہ) پڑ رہا ہے ‘ اور ان کی آمدن کرنل شفیق الرحمان کی کتاب مزید حماقتیں میں ایک افسانے کے کردار منے میاں کی زبان میں ایک سے دس تک کی گنتی کے بعد غلام بیگم بادشاہ کے کرداروں کے سامنے سرنگوںہو چکی ہے ‘ یعنی دس( ہر سال دس فیصد اضافہ) کے بعد آگے اقتدار کی غلام گردشوں میں موجود غلاموں اور آگے بیگم اور بادشاہ کے مرہون منت دکھائی دے رہی ہے ‘ ہر سال ہندسہ بڑھ جاتا ہے مگر سر کار والا مدار کی مہربانی سے دوائوں کی قیمت میں 400فیصد اضافہ اور دیگر اشیاء کی مہنگائی سے ہندسوں کی دیوار شکستہ ہوتی رہتی ہے ۔ بہرحال دیکھتے ہیں کہ پچاس فیصد والی خبر کے فلر سے ہوتے ہوئے 20اور پندرہ فیصد کی تین روز پہلے کی خبر کے بعد فائنل کہاں جا کر کھیلی جاتی ہے یعنی وہ دس فیصد؟ گویا وہی ہے چال بے ڈھنگی جو پہلے تھی سو اب بھی ہے ۔ بقول ظفر اقبال
مدد کی تم سے توقع تو خیر کیا ہو گی
غریب شہر ستم ہوں میرا پتہ رکھنا