یہ شکوے شکایات؟

سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے سپریم کورٹ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ سارا ملک آپ کی طرف دیکھ رہا ہے، تاریخ آپ کا کردار یاد رکھے گی۔ اب تک ہمیں ایسے نظر آ رہا ہے کہ طاقتور کے سامنے آپ آہستہ آہستہ اپنی طاقت کھو رہے ہیںہمیں نہیں نظر آ رہا ہے کہ ان طاقتوروں کے سامنے آپ کھڑے ہونے کے قابل ہیں کیونکہ جس طرح ہر روز ہمارے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے، اور پھر اس وقت ہمارے بنیادی حقوق کی حفاظت کرنے والی عدلیہ ہمیں نظر نہیں آ رہی، تو اس لیے میں آپ سے اپیل کر رہا ہوں کہ بڑی مشکل سے ہم یہاں تک جمہوریت کا سفر طے کر کے پہنچے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس وقت آپ کو کھڑا ہونا پڑے گا ورنہ تاریخ یہ یاد رکھے گی جب ایک فاشٹ حکومت جمہوریت کو لپیٹ رہی تھی اور جب وہ یہ کر رہی تھی تو پاکستان کی سپریم کورٹ نے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی۔تحریک انصاف کے چیئرمین اپنے طرز خطابت اور بدلتے خیالات کے حوالے سے خاصی شہرت کی حامل شخصیت ہیں عام طور پر خیال کیا جاتا ہے اور مخالفین و حکمران شکوہ کناں رہے ہیں کہ عدلیہ تحریک انصاف کے چیئرمین کو خاص طور پر سرپرستی کر رہی ہے اور ان کو مختلف مقدمات میں معمول سے ہٹ کر رعایتیں دی گئیں دیکھا جائے تو اب بھی وہ رعایتی طور پر ہی قیدو بند کی صعوبت سے محفوظ ہیں لیکن ظاہر ہے اس طرح کی رعایت اور سہولت تحریک انصاف کے ہر ایک کے لئے ممکن کیسے ہو سکتی ہے جس کی عمران خان عدلیہ سے توقع رکھتے ہیں اور ایسا نظر نہ آنے پر انہوں نے اپنے آخری سہارے کو بھی للکارنے کی غلطی کرتے نظر آرہے ہیں بلاشبہ عدالت عظمیٰ انسانی حقوق اور آئینی حقوق سمیت قانون کی پابندی کی ضمانت والا بڑا ادارہ ہے دیکھا جائے تو عدالتیں اب بھی مسلسل اس ذمہ داری کو ان حالات میں بھی نبھانے کے لئے پوری طرح کوشاں اور سنجیدہ ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ بعض مخصوص معاملات میں عدالتوں کو بھی عدم تعاون کے باعث مشکلات کا سامنا ہے جہاں مقدمات سول قوانین کی بجائے دیگر قوانین کے مطابق چلائے جائیں وہاں سول عدالتوں کا دائرہ اختیار حتمی اپیل کے بعد ہی شروع ہوتا ہے نو مئی کے واقعات اتنے سنگین ہیں کہ اس ضمن میں کسی رعایت اور مداخلت دونوں کی گنجائش نہیں ایسے میں تحریک انصاف کے قائد کی جانب سے عدالت عظمیٰ سے زیادہ توقعات وابستہ کرنے کی بجائے ان کرداروں کے خلاف مقدمات کی تحقیقات میں شفافیت کا مطالبہ کرنا مناسب ہوتا تاکہ کسی بے گناہ کو سزا نہ ملے اور قصور وار سزا سے بچ نہ نکلے ۔تحریک انصاف کے قائد حسب دستور اگر عدالت عظمیٰ کے حوالے سے بھی بے صبری سے کام لیں گے تو آخری امید سے بھی مایوس ہو سکتے ہیں علاوہ ازیں بھی پہلے سے تنقید اور مشکلات کا شکار عدلیہ کو مزید کیچڑ میں کھینچ لینے کی گنجائش نہیں بہتر ہوگا کہ صبر وتحمل سے حالات کا مقابلہ کیا جائے اور اچھے دنوں کا انتظار کیا جائے۔

مزید پڑھیں:  ملتان ہے کل جہان