معاشرتی مسائل کا گول چکر

دوسرے ترقی پذیر ممالک کی طرح پاکستان کو بھی معاشرتی مسائل کا سامنا ہے پاکستان اس لحاظ سے زیادہ مشکل صورتحال کا شکار ملک اس لئے ہے کہ ملک میں سیاسی عدم استحکام کے باعث معاشرتی مسائل اور بھی سنگین صورت اختیار کرتے جارہے ہیں جائزہ لیاجائے تو سیاسی عدم استحکام سے جڑے معاشرتی مسائل میں آئے روز اضافہ ہوتا جارہا ہے دکھ کی بات یہ ہے کہ ان مسائل کا حل تو درکنار ان مسائل کی وہ وجوہات جن کا حل ہمارے بس میں ہے اس پر بھی کوئی آمادہ نہیں جن مسائل و مشکلات کا حل مشکل ہے وہ اپنی جگہ لیکن جن مسائل و مشکلات کی وجوہات ہم خود ہیں اس طرف تو کم از کم توجہ کی ضرورت ہے دیکھا جائے تو ان معاشرتی مسائل میں حالات کے ساتھ ساتھ خود ہماری اپنی اور ہماری حکومتی بے حسی کا کردار اور ہمارے سیاستدانوں و عوامی نمائندوں کا کردار کلیدی ہے ایک غلط نظام میں درست حاکم کا ہونا بے معنی سی بات ہے ۔میرے نزدیک پاکستان کو درپیش چند ایک معاشرتی مسائل یہ ہیں ‘ غربت ‘ خواتین کو معاشرے میں کمتر مقام دینا ‘ کثرت آبادی و شرح پیدائش میں روز افزوں اضافہ وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اور حکومتی سطح پر ناانصافی خاص طور پر چھوٹے صوبوں کے عوام کو ان کے حقوق سے محروم رکھاجاتا ‘ سیاسی انتشار کا لامتناہی سلسلہ اور اس کے حل کی بجائے اس کو بڑھاوا دینے کا عمل انا اور ضد کی سیاست ‘ دہشت گردی ‘ بچوں سے مشقت اور ان سے جبری کام لینا اور ان سے ایسے کام کروانا جن کا ان کو وقتی طور پر اونٹ کے منہ میں زیرہ کے برابر کچھ ملے نہ ملے مگر کسی ہنر سے ان کو دور رکھنا جس سے ان کو مستقبل میں فائدہ مل سکے ‘ آبنوشی اور صحت کی سہولتوں کا فقدان اور ان سہولتوں کی فراہمی میں امتیاز و ناانصافی نسلی و فرقہ وارانہ منافرت اور اس کو طول دینے والے عوامل کا عدم خاتمہ ایک ایسی منافرت آمیز معاشرہ جو اسکے باشندوں کی زندگی شخصی آزادی اور مذہبی آزادی دونوں کے لئے قابل رکاوٹ ہو بشری حقوق کی عدم ادائیگی بلکہ اس پر حکومتی و معاشرتی طور پر سرے سے عدم توجہ بے راہ روی کے اسباب ‘ منشیات کا پھیلائو و دستیابی اور اس کی روک تھام میں معاشرہ اور حکومتی اداروں دونوں کی ناکامی ‘ رشوت کا عام ہونا اور مٹھی گرم کئے بغیر کوئی کام نہ ہونا پہیہ لگائے بغیر سرکاری اداروں میں فائل کا پڑے رہنے دینے کا عمل اشیائے خورد ونوش سے لے کر غیر ملکی سامان اور منشیات کی سمگلنگ جیسے مسائل کا ہمیں عام طور پر سامنا ہے اب آپ اس فہرست میں مذکورہ مسائل پر از خود غور فرمائیں اور دیکھیں کہ کتنی باتیں کتنے عوامل اور کتنی چیزیں ایسی ہیں جن پر کسی قسم کے وسائل خرچ کرنے کی ضرورت نہیں حکومتی مشینری اور ضروری عملہ پہلے سے موجود ہے اور وسائل و انتظامات بھی دستیاب ہیں صرف ان کو پوری طرح فعال بنانے اور ایمانداری کے ساتھ اپنے فرائض انجام دینے کی ضرورت ہے حکومتی سطح پر ہونے والی ناانصافی کا وسائل کے حوالے سے کوئی جواز نہیں حکومت اور سرکاری ادارے خود غاصب کا کردار نبھا رہے ہوتے ہیں اور اس کے اثرات کے باعث معاشرہ مسائل کا شکار ہے اور برسوں سے جکڑے ہوئے مسائل سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں نکلتا بہت سارے عوامل کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو گا کہ ہم اس قدر مسائل کا شکار حالات کے باعث نہیں بلکہ خود اپنے ہی ہاتھوں سے مسائل و مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں ان حالات میں معاشرتی ترقی مشکل سے مشکل تر ہوتی جارہی ہے بہرحال جیسے جیسے معاشرہ ترقی کی راہ پر گامزن ہوتے ہیں تو ان میں کئی سماجی تبدیلیاں رونما ہونا فطری امر ہوتا ہے جس میں کسی بھی تبدیل ہوتی ہوئی صورتحال میں لوگوں کے لئے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ وہ نئی جہتوں کو اپنائیں یا پرانی اقدار کے ساتھ منسلک رہیں ایسی صورت میں عام طور پر معاشرے میں کچھائو اور تنائو کی صورت پیدا ہو جاتی ہے اور معاشرے میں تضاد ات مزید پھیل جاتے ہیں ان میں وسعت آنے لگتی ہے اور خلیج میں اضافہ کے باعث معاشرہ مزید انحطاط اور مشکلات کا شکار ہوجاتا ہے اس امرکا نہ صرف ادراک ضروری ہے بلکہ ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ اس صورتحال میں ترقی یافتہ حکمت عملیوں میں یہ صلاحیت ہونی چاہئے کہ وہ اس ساری کشیدگی اور کچھائو و تنائو کی صورتحال کو پرامن سماجی ہم آہنگی میں تبدیل کرنے کی مساعی کریں اور ان خامیوں ‘ خرابیوں ‘ مشکلات اور چیلنجوں کا اسی مرحلہ پر حل تلاش کرنے میں کامیابی حاصل کی جائے تاکہ یہ مزید آگے بڑھ کر معاشرتی مسائل کا روپ نہ دھار لیں اس بارے دو رائے نہیں ہو سکتی کہ معاشرتی مسائل کے کسی بھی معاشرے پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں جس میں اہم اثر معاشرہ کے امن واستحکام اور عوامی و معاشرتی ہم آہنگی پر پڑتا ہے جس سے معاشرے میں جارحیت اور عداوت کو فروغ حاصل ہوتا ہے جاری سیاسی حالات و معاملات کے تناظر میں بالخصوص اور معاشرتی حالات کے تناظر میں بالعموم جائزہ لیا جائے تو کیا ہم بعینہ ان حالات سے نہیں گزر رہے ہیں میرے نزدیک ہمیں حرف بحرف ان حالات کا سامنا ہے جو معاشرے میں عمومی مایوسی اور بے اطمینانی میں اضافے کا سبب ہیں ‘مجموعی طور پر معاشرتی مسائل کسی مسئلے کا حل پیش نہیں کرتے بلکہ مسائل کی شدت میں اضافہ کرنے کا باعث ہی ثابت ہوتے ہیں اور یہی چیز معاشرہ اور لوگوں دونوں کے لئے نقصان دہ ہے نیز اس کے حکومتی اداروں پر بھی منفی اثرات پڑتے ہیں اور پورا نظام متاثر ہوتا ہے اس مسئلے کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ لفظ مسئلہ کوئی مستند معنی نہیں رکھتی بلکہ ایک جامع اور تبدیلی رکھنے والا ایسا لفظ ہے جس کے معنی وقت اور حالات کی مناسبت سے تبدیل ہوتا رہتا ہے اور موقع محل کی مناسبت اس کے مفہوم و معنی کا تعین کرتا ہے ۔ بنا بریں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ معاشرتی مسائل کے اثرات معاشرے کے تمام اداروں بشمول خاندان ‘ معیشت ‘ سیاست ‘ مذہب اور تعلیمی اداروں اور عام آدمی کی زندگی اور طرز زندگی سبھی پر محیط اور اثر انداز امر ہے ۔ان عوامل کے مفصل جائزے کے بعد یہ نیتجہ اخذ کرنا غلط نہ ہو گا کہ ان مسائل کی وجہ سے مجموعی طور پر ملکی اداروں کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے معاشرتی مسائل ہی معاشرتی ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ کا باعث ہیں اور جب تک ان مسائل کی سنگینی کو سمجھا نہ جائے اور ان کے حل پر بھر پور توجہ نہ دی جائے تب تک کسی بھی معاشرے میں امن و استحکام اور ہم آہنگی کی فضا پیدا نہیں ہوسکتی اور آج کل ہمیں انہی مسائل کا سامنا ہے اور پورا معاشرہ اسی میں گھرا نظر آتا ہے معاشرتی ترقی معاشرتی ارتقاء اور معاشرتی تغیر کے عوامل ہی وہ عوامل ہوتے ہیں جو کسی معاشرے کی تعمیر و تنزل کا باعث بنتے ہیں اور معاشرتی مسائل ہی معاشروں کو پیچھے دھکیلنے کا باعث بن رہے ہوتے ہیں۔یہ صرف کتابی باتیں نہیں بلکہ حقائق ہیں جن کا عملی طور پر ادراک اور ان کے حل کی طرف ہر سطح پر توجہ ہونی چاہئے ان حالات کے پیدا ہونے کے عوامل کا جائزہ لیا جانا چاہئے اس پر تعامل کی ضرورت ہے جو نتیجہ خیز ہو اور اس میں ان مسائل کا تفصیلی جائزہ لے کر ان کا حل تجویز کیا گیا ہو معاشرے کا ہر فرد اور ہر فریق اگر اپنی طرف سے متوجہ ہو اور کوشش کی جائے کہ وہ معاشرے کے لئے مسائل کا سبب بننے کی بجائے آسودگی دینے کا کردار بن جائے اور سرکاری سطح پر ناانصافیوں کا سلسلہ بند کیا جائے خاص طور پر معاشی انصاف کی فراہمی میں وفاقی حکومت کردار ادا کرے اور صوبے اپنی جگہ ذمہ داری نبھائیں سرکاری مشینری فعال ہو اور معاشرہ زندہ کردار بن جائے تو حالات سے نکلنا زیادہ مشکل نہ ہو گا۔وگر نہ حالات کی یہ بیڑیاں ہمیں ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھنے دیں گی اور ہم بدستور اپنی ہی خامیوں اور خرابیوں کے غلام بنے رہیں گے ۔

مزید پڑھیں:  اپنے جوتوں سے رہیں سارے نمازی ہو شیار