یاسین ملک کو سزائے موت دلوانے کی کوششیں

بھارت کی وفاقی تحقیقاتی ایجنسی این آئی اے نے عدالت سے کشمیری راہنما محمد یاسین ملک کو سزائے موت دینے کی استدعا کی ہے ۔نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی کی طرف سے کی جانے والی یہ استدعا نہ صرف ایک ذہنیت کا پتا دی رہی ہے بلکہ بھارت اور نریندر مودی کے مستقبل کے عزائم کا بھی کھلا اظہار ہے ۔ایجنسی کی اس اپیل کے بعد کشمیر میں سراسیمگی پیدا ہوچکی ہے اور یہ سوال زباں زدعام ہے کہ کیا نریندر مودی کی حکومت اگلے انتخابات کو جیتنے کے لئے یاسین ملک کو افضل گورو کے انداز میں سزائے موت دے سکتے ہیں ۔گزشتہ برس دہلی میں بھارتی عدالت نے تحریک آزادی کے راہنما محمد یاسین ملک کو عمر قید کی سزا سنائی تھی ۔یاسین ملک پر ایک سو بیس الزامات پر مبنی فرد جرم عائد کی گئی تھی جس کا دفاع کرنے سے انہوں نے یہ کہہ کر انکار کیا تھا کہ پہلے سے لکھا ہوا فیصلہ سنائیں او ر مجھے پھانسی دیںمیں اپنے دفاع میں کچھ نہیں کہنا چاہتا۔ یاسین ملک کی اس بات کے بعد عدالت نے اپنا فیصلہ محفوظ کر لیاتھا ۔بھارتی اداروں کی طرف سے یاسین ملک کو سزائے موت دینے کے حق میں دلائل دئیے گئے تھے جن کا ذکر عدالت نے اپنے فیصلہ میں بھی کیا تھا۔ محفوظ فیصلہ سنانے کے دن یاسین ملک کو دوبارہ سخت حفاظتی حصار میں عدالت لایا گیا تھا۔اس موقع پرجج نے کہا تھاکہ استغاثہ نے عدالت سے ان کی سزائے موت کی درخواست کی ہے جس پریاسین ملک نے کہا وہ عدالت سے کسی قسم کی بھیک نہیں مانگیں گے مگر عدالت کو ان کے سوالوں کے جواب دینا ہوں گے ۔جج نے یہ کہہ کر اب ان باتوں کا وقت گزر گیا ہے سوالوں کا سامنا کرنے کی بجائے اپنا فیصلہ سنا دیاتھا۔ یاسین ملک کو سزا سنائے جانے کے دن کشمیر میں ہڑتال تھی جبکہ بھارتی فوج کسی بھی صورت حال سے بچنے کے لئے شہر ودیہات میں کرفیو نافذ کر رکھا تھا ۔اس کے باوجود لوگوں کی ٹولیاں سری نگر مائسمہ علاقے میں یاسین ملک کی رہائش گاہ کے باہر جمع ہو کر ان کی حمایت میں نعرے لگاتے رہے ۔بھارتی فوج نے ایسے درجن بھر نوجوانوں کو گرفتار کرکے میڈیا کے سامنے نہایت ذلت آمیز انداز میں پیش کیا ۔اس سے انداز ہ ہوتا ہے کہ بھارت نے کشمیر میں لوگوں کی آواز کو دبانے کے لئے جس انداز کا جبر کا تہہ د رتہہ نظام قائم کررکھا ہے۔کنٹرول لائن کے دونوں جانب کشمیریوں نے بھرپور احتجاج کرکے بھارتی عدالت کے فیصلے کو مسترد کیاتھا ۔آزادکشمیر میں بھی اس فیصلے کے خلاف بھرپور احتجاج کیا گیا تھا ۔مقبوضہ کشمیر میں پانچ اگست سے پہلے کی پوزیشن کی بحالی کے لئے قائم روایتی سیاسی جماعتوں کے اتحاد پیپلزالائنس فار گپکار ڈیکلریشن کے ترجمان محمد یوسف تاریگامی نے بھی اس فیصلے پر اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس سے امن کی کوششوں کو دھچکا لگے گا۔یاسین ملک کی سز ا کے فیصلے کے روز ان کے گھر کی کھڑکی پر ان کی ہمشیرہ کی قرآن پاک پڑھتے ہوئے ایک تصویر وائرل ہوئی تھی ۔یوں لگتا ہے کہ بھارتی حکومت کی تشفی یاسین ملک کی عمر قید سے نہیں ہو رہی اور وہ کشمیر کے ایک اہم اور مقبول سیاسی راہنما کو تختہ دار تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ یاسین ملک بھارتی عدالت سے عمر قید کی سز اپانے والے پہلے سربرآوردہ کشمیری راہنما ہیں ۔اس سے پہلے بھارت نے جرم آزادی میں یا تو مقبول بٹ اور افضل گورو کی طرح حریت پسندوں کو تختہ ٔ دار پر چڑھا دیا یا پھر سید علی گیلانی کی طرح غیر اعلانیہ عمر قید میں رکھ کر انہیں جہان فانی سے رخصت ہونے کا انتظار کیا اور اب شبیر احمد شاہ اور دوسرے قائدین مختلف مقدمات میں جیلوں میں پڑے ہوئے ہیں۔یاسین ملک کشمیر کی اس سیاسی قیادت کا حصہ ہیں جس نے اپنا حال قوم کے آزاد باوقار مستقبل کے لئے وقف کئے رکھا ۔اس راہ کو منتخب کرنے والوں کی زندگیاں یا تو جیلوں میں گزر گئیں یا پھر صعوبتوں کی کسی او ر زنجیر نے انہیں تاحیات جکڑے رکھا۔اس نسل نے اپنا حال خراب کرکے قوم کا مستقبل سنوارنے کا بار عظیم سنبھال لیا۔یہ کوئی آسان راستہ نہیں ۔یہ کانٹوں بھری راہ ہے ۔دس سال کی نظر بندی کے بعد اس راہ پر چلنے والے سید علی گیلانی کا جنازہ بھی چھین کر رات کی تاریکی میں دفن کر کے ان کی قبر پر پہرہ بٹھا دیا جاتا ہے۔اس راہ میں چلنے والے مقبول بٹ اور افضل گورو کو پھانسی کے پھندوں پر چڑھا کر ان کی قبروں کے نشان بھی نہیں چھوڑے جاتے کہ مبادا یہ نشان نئی نسل کے لئے قوت کا سامان بن جائیں۔اس راہ کا انتخاب کرنے والے اشرف صحرائی کسی روز جیلوں کی تنگ وتاریک فضا میں اپنوں سے دور گھٹ گھٹ کر دم توڑدیتے ہیں۔ اسی قطار میں شبیر شاہ ،نعیم خان اور مسرت عالم جیسے لوگ ہیں اور جانے کب ان کی باری آجائے ۔کشمیریوں کی اس نسل سے بھارت خصوصی طور پر خار کھاتا ہے کہ اس نسل نے بھارت کے قبضے کو چیلنج کیا اور یوں کشمیر ایک انقلاب سے آشنا ہوا۔بھارت سمجھتا ہے کہ اس نسل کو حراست میں جاں سے ختم کرکے یا پھانسی دے کر اور طویل عرصے تک جیلوں میں رکھ کر کشمیریوں کی نئی نسل کو آزادی جیسے نعروں سے توبہ تائب کر اسکتا ہے۔اس نسل کے خاتمے کے بعد کشمیر میں نہ تو آزادی کے حوالے سے دوبارہ کوئی فصل لہلہائے گی اور نہ اس کی آبیاری کی کوئی جرات کرسکے گا ۔اس لئے وہ ایک پوری نسل کو نشان عبرت بنائے ہوئے ہے۔کچھ یہی سوچ کر بھارت نے کشمیر کی خصوصی شناخت چھیننے کا فیصلہ بھی کیا تھا ۔سرکاری فرمان نے جموں وکشمیر کو یونین ٹیریٹری کا نام تو دیا مگر کشمیریوں کے دل ودماغ تسخیر نہ کئے جا سکے۔نتیجہ یہ ہے کہ بھارت کشمیر میں بدستور ایک دلدل میں کھڑا ہے اور اس کا اعتراف بھارت کے معتدل مزاج دانشور بھی کر رہے ہیں ۔بھارتی خفیہ ایجنسی را کے سابق سربراہ اے ایس دولت نے دی وائر ٹی وی کے کرن تھارپر کو کشمیر کے حوالے سے ایک اہم انٹرویو میں کہا کہ پانچ اگست کے بعد کشمیر کی صورت حال مزید سنگین ہو کر رہ گئی ہے ۔کشمیر میں تحریک ایک نئے انداز اور نئی حکمت عملی کے ساتھ سامنے آرہی ہے۔