سیاسی کشیدگی سے جنم لیتے سوال

وزیر اعظم شہبازشریف نے بوجوہ سیاسی مذاکرات اور مکالمے کو رد کرتے ہوئے جن حقائق کی نشاندہی کی ہے ان سے اگرچہ آنکھیں نہیں چرائی جا سکتیں تاہم پھربھی آزاد معاشروں میں سیاسی مکالمے کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ‘ وزیر اعظم نے بھی یہ بات تسلیم کی ہے کہ مکالمہ جمہوری عمل کا حصہ ہے ‘ اسی کی بدولت جمہوریت مستحکم ہوتی ہے ‘ تاہم ڈائیلاگ سیاسی لبادہ اوڑھے ہوئے ایسے افراد کے ساتھ نہیں ہوسکتے جو ریاستوں کی علامتوں پرحملہ آور ہوتے ہیں ‘ ایسے عناصر کی متشدد کارروائیوں کا محاسبہ ہونا چاہئے۔ نو مئی کے واقعات نے نہ صرف ملک میں شر پھیلایا بلکہ پاکستان کو شدید معاشی نقصان پہنچایا ‘ وزیراعظم نے کہا کہ گزشتہ حکومت نے اپنے اقتدار کو بچانے کے لئے آئی ایم ایف معاہدہ توڑا جس کا خمیازہ 22 کروڑ عوام بالخصوص صنعتوں کوبھگتنا پڑا ‘ ہم سب مل کر اس معاشی مشکل سے بتدریج نکل رہے ہیں ‘ ادھر سابق وزیر اعظم اور تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے الزام عاید کیا ہے کہ عدلیہ اور ججوں پر دبائوڈالا جارہا ہے ‘ ملک کے تمام اداروں کو تحریک انصاف کے خلاف استعمال کیا جارہا ہے ‘ ایک کنگزپارٹی تیار کی جارہی ہے جس میں پی ٹی آئی چھوڑنے والوں کو شامل کیا جائے گا ‘ انہوں نے کہا کہ مخلوط حکومت مسائل کا حل نہیں ‘ اسٹیبلشمنٹ کے بغیر عوامی حمایت سے بننے والی حکومت ہی ملک کو مسائل سے نکال سکتی ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ وزیر اعظم نے تحریک انصاف کے کارکنوں کی جانب سے ا ہم قومی تنصیبات پرحملوں کوجنہیں انہوں نے بجا طور پر ریاستی علامات سے تشبیہ دی ہے ‘ جس طرح تنقید کا نشانہ بنایا ہے اس پر دو آراء نہیں ہوسکتیں ‘ عمران خان سے پہلے بھی لاتعداد سیاسی رہنماء مختلف ادوارمیں گرفتار بھی ہوتے رہے ہیں ‘ ان پرمقدمات بھی قائم ہوئے اور جیلوں کی سیربھی کرائی جاتی رہی ہے مگر ان سیاسی رہنمائوں کے کارکنوں اور ماننے والوں نے کبھی ریاستی اداروں پرحملہ کیا نہ کوئی توڑ پھوڑ ‘ تشدد اور جلائو گھیرائو کیا ‘ کسی سیاسی رہنماء کی گرفتاری سے متعلقہ کسی بھی سیاسی جماعت کو یہ حق نہیں مل جاتا کہ وہ ملک میں بدامنی کوفروغ دیں اور پھراس کے لئے جواز بھی تلاش کرے’ بدقسمتی مگر یہ ہے کہ عمران خان نے اپنے اقتدار کے دوران جس طرح مخالف سیاسی رہنمائوں کے خلاف کریک ڈائون جاری رکھا ‘ ان پر جھوٹے مقدمات قائم کئے قیدو بند کے دوران ان سے غیر انسانی سلوک روا رکھا (جواب کوئی پوشیدہ امر نہیں رہا) یہاں تک کہ حزب اختلاف کی جانب سے ملکی معاشی صورتحال کی ابتر صورتحال پرمیثاق معیشت کی پیشکش کوبھی’این آر او” قرار دے کر مخالفانہ پروپیگنڈہ کرکے ملکی اقتصادی تباہی کی راہ اختیار کی اوراپنے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش ہونے کی سن گن پا کر آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے پر ”یوٹرن لے کر جس طرح ملک کو””سری لنکا” بنانے کی راہ پرڈالا ‘ جس کے نتائج آج پوری قوم بھگت رہی ہے ‘ اس سے ان کے بیانئے پر سوال اٹھنا فطری امر ہے ‘ عمران خان کا یہ دعویٰ بھی محل نظر ہے کہ بقول ان کے ایک کنگز پارٹی بنائی جارہی ہے جس میں پی ٹی آئی چھوڑنے والوں کو شامل کیا جائے گا کیونکہ جہاں تک کسی اور کنگزپارٹی کے قیام کی بات ہے تو عمران خان کے وفاق میں برسر اقتدار آنے کے حالات کبھی اگر ذہن میں لائیں تو اس بات کی وضاحت ہوجائے گی کہ کس طرح اس دورمیںاداروں کی مدد سے آر ٹی ایس بٹھا کر اور دیگر طریقے اختیار کرکے خود ان کی جماعت کو”کنگز پارٹی” کا درجہ دیاگیا ‘ بعد میں بھی مختلف مواقع پر جس طرح ان کے لئے پارلیمنٹ میں ممبران کو مینج کرنے کے لئے بھی ادارے ہی خود بقول عمران خان کے کردار ادا کرتے رہے ‘ جبکہ پنجاب میں نون لیگ کی عددی برتری کے باوجود ایک نجی جہازمیں ممبران اسمبلی کو بھر بھر کر لایا جاتا رہا اور انہیں تحریک انصاف میں زبردستی شامل کرایا جاتا رہاجس کی وجہ سے پنجاب میں بھی تحریک انصاف کی حکومت قائم ہو گئی اور اس کے بعد جو سیاسی صورتحال بنی وہ تاریخ کاسیاہ باب ہے ‘ عمران خان کی اس بات سے اتفاق توکیا جا سکتا ہے کہ آئین انہیں احتجاج کاحق دیتا ہے ‘ لیکن یہ آدھا سچ ہے کیونکہ پورا سچ یہ ہے کہ احتجاج کرنے کے لئے بھی آئین کے اندر حدود و قیود مقرر ہیں اور احتجاج کو پرتشدد ہنگاموں میں ڈھالنے اور قومی املاک خصوصاً بقول وزیر اعظم شہباز شریف ریاستی علامتوں پر حملہ آور ہونے کی اجازت آئین بھی نہیں دے سکتا ‘ جہاں تک بقول عمران خان عدلیہ پردبائو ڈالنے اور ججز کو دھمکی آمیز کالزکی وصولی کاتعلق ہے تو اس حوالے سے شکایت خود ججز ہی کوکرنی چاہئے نہ کہ عمران خان ان کے ”ترجمان”بن کر ایسی باتیں کریں جن کا ان کے پاس کوئی ثبوت بھی شاید نہ ہو ‘ ان تمام حقائق اور دو طرفہ موقف کے سامنے آنے کے بعد عوام بہترین منصف بن کر حالات کا ادراک کرنے کے لئے آزاد ہیں لیکن ہم پھربھی یہی گزارش کریں گے کہ جمہوری معاشروں میں معاملات کو سلجھانے کے لئے مکالمہ کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ‘ اس لئے بہتر ہے کہ معاملے کے ہر پہلو پر ٹھنڈے دل اوردماغ سے سوچ سمجھ کر آگے بڑھا جائے ‘ اسی میں بہتری ہے۔

مزید پڑھیں:  امریکی پابندی کا استرداد