سیماب مظفر

شوبز میں آنے کا سہرا مستنصر حسین تارڑ کے سر ہے، سیماب مظفر

پاکستان ٹی وی انڈسٹری کی خوبرو اداکارہ، ماڈل اور میزبان سیماب مظفر پچاس سے زائد ڈراموں میں مرکزی کردار ادا کر چکی ہیں، طویل عرصے تک اس انڈسٹری سے منسلک رہنے والی اداکارہ سیماب مظفر شادی کے بعد امریکہ شفٹ ہو گئی تھیں جس کے بعد پہلی بار انہوں نے روزنامہ مشرق سے خصوصی بات چیت کی ہے۔ اپنے فنی کیریئر کے حوالے سیماب مظفر کا کہنا تھا کہ ”میں نے ریڈیو سے اپنے فنی سفر کا آغاز کیا، کالج کے قریب ہی ریڈیو اسٹیشن تھا جہاں کچھ دوستوں کے ساتھ آنا جانا رہتا تھا، ایک دوست کے بھائی کے توسط سے بعد وائس اوورز کا کام ملنے لگا، پہلی مرتبہ کالج کے سالانہ ڈرامہ کمپیٹیشن میں منتخب ہوئی جب میں سیکنڈایئر میں تھی، ٹی وی کی سینئر اداکارہ فائزہ گیلانی تھی اس ڈرامے میں ان کے مقابلے میں کامیابی حاصل کرنے میرا لئے بہت اعزاز کی بات تھی، جیوری میں عثمان پیرزادہ سمیت کچھ اور سینئر آرٹسٹ بھی موجود تھے، اس میں مجھے پہلا انعام ملا جو میرے لئے آسکر سے کم نہیں تھا۔ کمپیوٹر سائنسز میں ماسٹرز کیا، فائنل امتحان میں ٹاپ کیا اور گولڈ میڈل حاصل کیا۔ انہی دنوں کالج میں منوبھائی کا ایک پلے تھا جس کے آڈیشن اور نئے ٹیلنٹ ہنٹ کے لئے کچھ لوگ آئے۔ بہت سارے لوگوں میں میرا انتخاب کیا گیا اور پہلے ڈرامے ”سنہرے موسم” میں عابد علی کی بیٹی کا کردار ادا کیا۔ پہلے ڈرامے میں مرکزی کردار ملنا بھی میرے لئے کسی خواب جیسا تھا۔ اس میں فردوس جمال، سکندر شاہین، زیب چوہدری، عمران عروج اور جاناں ملک بھی کاسٹ میں شامل تھے، میں نے بنیادی طور پر ایک ایسی لڑکی کا کردار کیا جو چھوٹی سی عمر میں ماں کے انتقال کے بعد زندگی گزارتی ہے جب کہ اس کے والد بھی پولیس آفیسر ہونے کی وجہ سے اسے وقت نہیں دے پاتے۔ اسی ڈرامے کی لانچنگ تقریب میں بہت سے اداکار آئے ہوئے تھے جن میں ثمینہ احمد بھی شامل تھیں، انہوں نے دیکھتے ہی کہا کہ میرے آفس آ کر ملو، اس کے بعد ان کے ساتھ ”ہاف سیٹ” کیا۔ ثمینہ آنٹی سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ اس کے بعد ان کے بیٹے زین نے ایک ڈرامہ کی آفر کی، وہاں سے جواد بشیر، سرمد کھوسٹ اور ان کی بہن مونیا، عدیل ہاشمی سمیت دیگر کئی ہدایتکاروں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا خاص طور پر سرمد پروڈکشن کے ہر پروجیکٹ میں مجھے موقع ملتا تھا۔ اس دوران ماسٹرز بھی مکمل کر لیا اس دوران ایک ریفرنس سے نجی انٹرٹینمنٹ چینل جانا ہوا تو پتا چلا وہاں ”شادی آن لائن” نامی شو کیلئے آڈیشنز ہو رہے ہیں، میں نے بھی قسمت آزمائی اور میری سلیکشن ہو گئی یوں پہلی بار مستنصر حسین تارڑ صاحب کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا اور اس کا کریڈٹ بھی انہی کو جاتا ہے اس لئے کہ وہ میرے والد کو بہت پسند تھے جب ان کا پتا چلا کہ میں تارڑ صاحب کے ساتھ کام کر رہی ہوں تو انہوں نے اجازت دیدی۔ یہ شو میرے شوبز کیریئر کا بریک تھرو ثابت ہوا اور اس کے بعد میں نے بہت کام کیا۔ ”راستہ دے زندگی”کے بعد ”مجھے اپنا نام و نشاں ملے” بہت مشہور سوپ تھا جو ہفتے میں تین دن چلا کرتا تھا اور تین سال سے زیادہ عرصے تک چلتا رہا۔ میزبانی کے کئی پروگرام کئے، ٹریول شو کیا، مستنصر حسین تارڑ کے تمام سفرناموں والی جگہوں پر جانا ہوا۔سیماب مظفر نے کہا میں اسی لئے اکثر کہتی ہوں کہ میرے شوبز کیریئر اور سفر کے شوق دونوں کے پیچھے تارڑ صاحب کا ہاتھ ہے، اب بھی ان کے ساتھ رابطہ رہتا ہے، اپنی ایک نئی کتاب میں انہوں نے ایک پورا پیراگراف میرے بارے میں لکھا ہے جو میرے لئے کسی اعزاز سے کم نہیں ہے۔ ”کلموہی” میرا آخری ڈرامہ تھا، اس ڈرامے کو کئی ایوارڈز ملے۔ مجھے بھی کئی ایوارڈز ملے۔ میوزک ویڈیوز بہت ساری کیں، شعیب منصور کی ایک ویڈیو میں بھی کام کیا، ٹیلی فلمز بھی بہت ساری کیں، اکثر کام بھول بھی چکی ہوں، شادی کے بعد امریکہ شفٹ ہو گئی، شادی کے بعد شوبز سے بریک لے لیا تھا تاہم یہاں بھی مختلف جگہوں پر عید شوز، ایونٹس اور دیگر تقریبات میں کام کرنے کا موقع ملا سب سے زیادہ نیویارک میں شوز کئے ہیں، اس کے علاوہ ڈیلاس، ٹیکسز اور شکاگو میں بھی کئی عید شوز کرنے کا موقع ملا۔ کئی شوز کی میزبانی کی کئی میں بطور مہمان خصوصی شرکت کی، کئی ٹیلنٹ ہنٹ شوز میں جیوری جج کی حیثیت سے بھی شرکت کا موقع ملا۔ یہاں پاکستانی کمیونٹی میں اکثر یوم آزادی کے حوالے سے یا دیگر ثقافتی شوز ہوتے ہیں جس میں شرکت کا موقع ملتا رہتا ہے۔میرے پاس ہوٹل منیجمنٹ اور ویڈیو پروڈکشن کی ڈگریز بھی ہیں۔ مختلف کمیونٹیز کے شوز کے علاوہ یوٹیوب پر اپنے شوہر کے چینل پر مختلف وی لاگز بھی شیئر کرتی ہوں۔ شوبز ایسی فیلڈ ہے کہ اگر آپ اسے چھوڑ بھی دیں تو یہ آپ کو نہیں چھوڑتی۔ دو بیٹیاں ہیں ان کی تربیت اور پڑھائی وغیرہ سے فرصت ہی کم ملتی ہے لیکن جب بھی وقت ملتا ہے کسی نہ کسی سرگرمیوں میں مصروف رہتی ہوں۔