انتخابات پر” مٹی پائو ” اصول کے منڈلاتے سائے

ملک میں اس وقت جس سکرپٹ کی عکس بندی کی کوششیں ہو رہی ہیں یہ کوئی نیا نہیں، نہ تو یہ سکرپٹ عوام کے لئے نیا ہے نہ اس کی عکس بندی کوئی نئی بات ہے، ہاں اس میں اگر کچھ نیا ہے تو وہ سکرپٹ کا عنوان ہے، مائنس ون کے نام سے بڑے ناموں کو سیاسی منظر سے غائب کرنے اور پردہ کے پیچھے دھکیلنے کا کھیل پاکستان کی سیاسی تاریخ میں جابجا نظر آتا ہے، اس بار بھی یہ سکرپٹ عمران خان کے عنوان سے روبہ عمل ہے، تیسری دنیا کے ملکوں میں جب کوئی لیڈر اس قدر بھاری ہو جاتا ہے کہ روایتی اور مروجہ سسٹم کا پلڑا اونچا ہو جانے اور سٹیٹس کو ٹوٹنے کا خطرہ پیدا ہوتا ہے تو پھر قومی مفاد کے عین مطابق اس لیڈر کو منظر سے غائب کرنا ضروری ٹھہرتا ہے، کوئی دوست ملک آگے بڑھ کر مائنس ہونے والے ہیوی ویٹ کی میزبانی کا شرف قبول کرنے پر تیار ہوتا ہے، پاکستان میں پہلے مائنس ون کا نام حسین شہید سہروردی ہے جو عوامی لیگ کے بانی تھے جو معتدل مزاج سہروردی کے بعد سخت گیر شیخ مجیب الرحمان کے ہاتھوں میں چلی گئی، حسین شہید سہروردی ایک دلیر بنگالی لیڈر تھے اور جو ملک کے دونوں حصوں میں یکساں احترام کے حامل تھے، وزیر اعظم کے منصب پر فائز رہے لیکن ایک قد آور لیڈر کا بوجھ زیادہ دیر تک سسٹم نہ اٹھا سکا اور انہیں اقتدار سے برطرف کرکے جلاوطن کر دیا گیا اور عالم جلاوطنی میں ہی ان کی موت واقع ہو گئی، اس کے بعد مائنس ون کا یہ عمل مختلف انداز اور ناموں سے جاری رہا اور ان دنوں عمران خان کو مائنس کرنے کا عمل جاری ہے کیونکہ عوامی مقبولیت کے باعث عمران خان کا وجود بھی اتنا بھاری بھرکم ہو چکا تھا کہ سسٹم کا پلڑا خاصا اوپر چلاگیا تھا۔ مائنس ون کرنے کے نتائج ماضی میں زیادہ حوصلہ افزا نہیں رہے کہ پہلے قد آور اور ہردلعزیز راہنمائوں کو سیلوٹ کرنا پڑتا تھا اور ان کے مائنس ہونے کے بعد انہی کے کسی بھائی بند اور واجبی صلاحیت کے حامل کسی شخص کے آگے یہ ناخوش گوار فریضہ سرانجام دینا پڑتا ہے، یوں مائنس ہو جانے والا حقیقت میں مائنس نہیں ہوتا بلکہ اس کا عمل دخل اور اثر و رسوخ کسی نہ کسی انداز سے جاری رہتا ہے۔ سسٹم کی اپنی مجبوریاں ہوتی ہیں جب کسی شخصیت کے آگے بیرونی طاقتیں سرخ دائرہ کھینچ لیں تو پھر سسٹم کو کمپرومائز کرنا ہی پڑتا ہے، کمزور معیشت کے حامل ملکوں کیلئے تو کسی بیرونی فرمائش کے آگے ڈٹ جانا ممکن نہیں ہوتا، دیکھنا یہ ہے کہ اس بار مائنس ون کا فارمولہ کس حد تک کارگر رہتا ہے، عمران خان نے خود پوچھا ہے کہ انہیں بتایا جائے کہ ان کے مائنس ہوجانے سے پاکستان کا کیا فائدہ ہے َتو ایسی صورت میں وہ خود مائنس ہو جائیں گے، وقت کے دھارے کو آگے بڑھنا ہی ہوتا ہے پی ڈی ایم اور نہ ہی عمران خان وقت کے دھارے کو آگے بڑھنے سے روک سکتے ہیں، آج پی ڈی ایم حکومت مائنس ون کے فارمولے پر دوڑ دوڑ کر عمل کر رہی ہے کہیں یہ اتحاد خود بھی کسی مرحلے پر مائنس نہ ہو جائے، پاکستان کی سیاست اور لندن کے موسم کا کوئی بھروسہ نہیں ہوتا، ملک میں موجودہ اسمبلی کی میعاد پوری ہونے کے دن قریب آرہے ہیں، وفاقی بجٹ کے بعد تو اصولی طور پر عام انتخابات کی تیاریوں کا آغاز ہو جانا چاہئے اور انتخابات سے تین ماہ قبل نگران حکومت کا قیام بھی آئین کا بنیادی تقاضا ہے، دو صوبوں میں اسمبلیاں اپنا وجود پہلے ہی کھو چکی ہیں اور ان صوبوں کے معاملات نگران حکومتیں چلا رہی ہیں، نگران حکومت کا پہلا اور آخری کام انتخابات کے انتظامات اور نگرانی تک محدود ہوتا ہے، وہ نہ ترقیاتی منصوبوں کا افتتاح کرسکتی ہے نہ کوئی سیاسی اور انتظامی ایجنڈا اپنا سکتی ہے مگر یہاں تو نگران حکومتوں کی میعاد گزر چکی ہے اور اب زائد المیعاد نگران حکومتیں عارضی اور مہمان کی بجائے مستقل میزبان بنی بیٹھی ہیں، نگران حکومتوں کی اس دلچسپ ادا پر پروفیسر عنایت علی خان کا یہ مزاحیہ شعر صادق آتا ہے ۔
چلے گئے ہم ان کے گھر مذاق ہی مذاق میں
پڑے رہے پھر عمر بھر مذاق ہی مذاق میں
الیکشن کمیشن ہاتھ پر ہاتھ دھرے یوں بیٹھا ہے کہ جیسے اسے ایک سو سال کیلئے کچھ نہ کرنے کا اذن دیا گیا ہو، الیکشن کمیشن انتخابات کے لئے ماحول اور منظر کے ناموافق اور ناسازگار ہونے کے اعلانات اور بیانات دینے پر مامور ہے، اس ساری صورت حال کو دیکھ کر کسی طور بھی یہ لگتا کہ ملک انتخابات کے ایک بنیادی آئینی تقاضے کو پورا کرنے کی طرف بڑھ سکتا ہے، پی ڈی ایم حکومت پر انتخابات کے نام سے ہی لرزہ طاری ہے، اس خوف کا تعلق گزشتہ ضمنی انتخابات کے نتائج سے ہے جن میں عمران خان نے محیر العقول کامیابی حاصل کی تھی، پی ڈی ایم کی حکومت بھی انتخابات کے یک نکاتی ایجنڈے کے ساتھ قائم ہوئی تھی اور ان کا خیال تھا عمران خان ملک میں غیر مقبول ہوچکے ہیں اور اس ماحول میں لوہا گرم ہوگا اور پی ڈی ایم فوری طور پر انتخابات کرا کے اگلے پانچ سال کے لئے حکومت بنانے میں کامیابی حاصل کرے گی مگر جو ہوا اس کے قطعی برعکس تھا، عمران خان کو اقتدار سے نکلتے ہی عوام میں اس قدر زیادہ پزیرائی مل گئی کہ سسٹم کے ترازو کا توان ہی خراب ہونے لگا، پی ڈی ایم سمیت پورے سسٹم کا پلڑا اوپر چلا گیا اور عمران خان کا پلڑا زمین پر بیٹھ گیا، ضمنی انتخابات میں دس سے زیادہ نشستوں پر عمران خان کی کامیابی نے اس منظر کو مزید ڈرائونا اور پیچیدہ بنا دیا، رائے عامہ کے سروے اور عوام کی پرجوش حمایت حکومت کو آنے والے منظر سے خوف زدہ کرتے چلے گئے اور یوں انتخابات کی منزل دور ہوتی چلی گئی، عمران خان نے حکمت عملی کے تحت ہی ضمنی انتخابات میں چار پانچ سیٹیں ہار دی ہوتیں تو شاید ملک آج یوں بند گلی میں کھڑا نہ ہوتا اور انتخابات کی منزل کی طرف پیش رفت کسی نہ کسی انداز سے جاری ہوتی، ان کی لینڈ سلائیڈ فتح نے کئی سوالات کھڑے کر دیئے اور ان سوالوں کے جواب تلاش کرتے کرتے ملک میں بگاڑ اور انتشار پیدا ہوتا چلا جا رہا ہے، اب جبکہ نو مئی کے بعد عمران خان بظاہر کمزور ہو چکے ہیں، ان کے سیاسی ساتھی ایک ایک کر کے داغ مفارقت دے چکے ہیں، لوگ ان کی پارٹی ہی نہیں سیاست کا بھاری پتھر بھی چوم کر چھوڑ چکے ہیں، ان پر قائم مقدمات کی تعداد دوسو کے قریب پہنچ چکی ہے اور اس حساب سے وہ دن میں تین تین مقدمات میں پیش ہوں تو بھی کم ہے، ان کی پارٹی میں کئی دھڑے وجود میں آچکے ہیں، ان کے سیکڑوں کارکن جیلوں میں چلے گئے ہیں، پی ڈی ایم کے رہنما برملا یہ اعلان کر رہے ہیں کہ عمران خان کا فتنہ اپنے انجام کو پہنچ گیا، وہ مکافات عمل کا شکار ہوگئے، عملی طور پر بھی وہ نظر بندی کی سی زندگی گزار رہے ہیں، صبح و شام ان کے کارکن پرچیاں پڑھ کر اپنی راہیں جدا کر رہے ہیں، عمران خان کے سیاسی طور پر چاروں شانے چت ہونے کے باوجود بھی پی ڈی ایم نامی پہلوان انتخابی رِنگ میں اُترنے سے گریزاں ہے حالانکہ اب پی ڈی ایم کے لئے انتخابی میدان صاف ہو چکا ہے اور ان کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ دور ہو چکی ہے اور ماحول ”سنجیان ہوجان گلیاں تے وچ مرزا یار پھرے” کی مانند یک طرفہ ہو چکا ہے، یہ لیول پلینگ فلیڈ سے بھی بہت آگے کا منظر ہے، اس ماحول میں بھی پی ڈی ایم کا انتخابات سے فرار کی راہیں تلاش کرنا ناقابل فہم ہے، جمہوریت میں جمہوریت کا علاج مزید جمہوریت میں ہے اور جمہوریت کا بنیادی تقاضا اور اصول انتخابات ہوتے ہیں جن سے انحراف کرکے قائم ہونے والا نظام کچھ بھی کہلا سکتا ہے مگر جمہوری ہرگز نہیں۔

مزید پڑھیں:  کہ دیکھنا ہی نہیں ہم کو سوچنا بھی ہے