”9 مئی خواتین کے حقوق اور پی پی پی کا کردار”

9 مئی 2023ء کا دن ایک زمانے تک ہماری سیاسی تاریخ میں یاد رکھا جائے گا، اس وقت ہماری مجالس میڈیا اور اخبارات و جرائد کے علاوہ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں اس واقعہ کی گونج اور بازگشت سنائی دے رہی ہے، ان سیاہ واقعات کی اصلیت کا پتہ لگنے تک پلوں کے نیچے سے کافی پانی بہہ چکا ہوگا، اہل اقتدار اور بعض دیگر طبقات میں ان واقعات کے حوالے سے کافی اختلافات موجود ہیں، پی ٹی آئی کے چیئرمین اور دیگر عہدیدار ان واقعات کے حوالے سے غیر جانبدار جوڈیشل کمیشن کے ذریعے تحقیقات کا مطالبہ کر رہے ہیں جبکہ حکومت اور بعض دیگر آڈیو ویڈیوز کے سہارے کسی اور تفتیش و تحقیق کو غیر ضروری گردانتے ہوئے پی ٹی آئی کے رہنمائوں، کارکنوں بالخصوص خواتین کارکنوں اور ان کے خاندان کے بے گناہ افراد کو دھڑا دھڑحوالہ زنداں کرنے میں کوئی تردد نہیں کرتے ۔
بیسویں صدی کا آواخر اور اکیسویں صدی میں اب تک خواتین کے حقوق کے حوالے سے مغربی ملکوں میں جو قانون سازی ہوئی ہے اس کے اثرات مثلًا مسلمان ممالک پر ان کے سفارت کاروں اور ان این جی اوز کے ذریعے کافی حد تک پڑے ہیں، اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ سعودی عرب اور بعض دیگر قدامت پسند ملکوں میں بھی خواتین کو کافی آزادی ملی ہے، اگرچہ اسلامی ملکوں میں اسلامی تعلیمات کے تحت خواتین کے حقوق پہلے ہی متعارف ہیں اور پاکستان کے آئین میں تو خواتین کو برابر کے حقوق دیئے گئے ہیں لیکن یہ اور بات ہے کہ آج تک یہ بے چاری مخلوق اپنے حقوق سے کماحقہ بہرور نہیں ہو سکی ہے، یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں بلوچستان اور کے پی اور دیگر صوبوں کے بعض دیہی علاقوں میں خواتین کو ووٹ دینے کے حق سے محروم رکھا گیا تھا۔
بھلا ہو پاکستان کے الیکشن کمیشن کے قانون کا، کہ اگر کسی حلقے میں خواتین کے ووٹ کا ایک خاص تناسب کاسٹ نہ کیا جائے تو اس میں انتخاب کو کالعدم قرار دیا جائے گا ‘تب جا کر بلوچستان ‘کے پی اور سندھ کے دور پار کے قدامت پسند علاقوں میں بھی ووٹ ڈالنے کا رجحان رائج ہونے لگا، اسی طرح کوئی مانے یا نہ مانے پاکستان میں غریب عوام کو ووٹ کا حق ذوالفقار علی بھٹوکی پیدا کردہ سیاسی بیداری سے حاصل ہوا اور کسی نے سچ کہا ہے کہ اس زمانے جب ایک عام غریب آدمی سے پو چھا گیا کہ” تم بھٹو سے کیوں محبت کرتے ہو ، اس نے تم لوگوں کیلئے کیا خاص کام کیا ہے ؟تواس نے فی البدیہ جواب دیا تھا کہ بھلے ہمارے لئے کچھ بھی نہ کرے، جلسوں میں تقاریر میں ہمارا نام تو لیتا ہے اس سے پہلے تو جنرل ایوب خان کا بی ڈی نظام تھا، گویا غریب عوام اس بات پر بھی بھٹو صاحب کے ساتھ محبت کا اظہار کرتے تھے کہ ان کے لبوں پر ہر وقت غریب کا نام تو رہتا ہے اور بعد میں انہوں نے عوامی کام بھی کئے لیکن سب سے بڑا کام ان کا یہ تھا کہ عوام کو آمروں، جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے شکنجے سے نکالنے اور نکلنے کا شعور دیا۔ اس پہلے تو عوام کی خواہش ہی رہی کہ ہے
ہونٹوں پہ کبھی ان کے میرا نام ہی آئے
آئے تو یہی برسر الزام ہی آئے
اسی طرح آج کے نوجوان عمران خان سے بھی اسی طرز پر محبت و عقیدت رکھتے ہیں، وطن عزیز میں تقریباً 65 فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے، ان نوجوانوں کے دل میں یہ احساس بے چینی کی انگڑائیاں لیتا رہا ہے کہ پاکستان کی پارلیمنٹ تک ہم کیوں نہیں پہنچ سکتے، میرٹ پر فیصلے کیوں نہیں ہوتے، موروثی سیاست کے طفیل ہم چند خاندانوں کے لئے زندہ باد کے نعرے لگاتے ہوئے ہر چار پانچ برس صرف ووٹ ڈالتے رہیں گے اور اسی طرح غلام ابن غلام رہیںگے، عمران خان بھی اپنے تین سال سات مہینے کے اقتدار میں اگر چہ کوئی خاص مراعات عوام کو نہ دے سکا تھا لیکن اس حوالے سے بھی نوجوان وہی دعویٰ رکھتے ہیں جو ذوالفقار علی بھٹو کے حوالے سے غریب عوام کا تھا، یہی وجہ تھی کہ 9 مئی کو جب عمران خان کو بہت ہتک آمیز انداز میں رینجرز کی وردی میں ملبوس اہلکاروں نے گرفتار کیا تو اس نوجوان پیروکاروں کا احتجاج ایک فطری امر تھا، نوجوان جذباتی ہوتے ہیں اورانہوںنے بار بار اس بات کا اظہار کیا تھا کہ عمران خان ہماری ریڈ لائن ہیں، اگر اس کو عبور کیا گیا توہم بھی ریڈ لائن عبور کرنے پر مجبور ہوں گے، نوجوانوں کی اس بات کو عمران خان کے سیاسی مخالفین نے ایک اور انداز سے ایک باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت مبینہ طور پر استعمال کیا، جذباتی نوجوانوں کو اشتعال دلایا گیا اور اہم مقامات کی حفاظت کے لئے متعین اہلکاروں نے بروقت اپنا کردار کیوں ادا نہ کیا، یہ وہ سوال ہے جو اس وقت وطن عزیز کے عوام کے اذہان میں ایک انتشار برپا کئے ہوئے ہے ۔
ملک بری طرح پولورائزڈ ہوچکا ہے، پی ڈی ایم طاقتوروں کی مبینہ پشت پناہی کے بل بوتے پر عمران خان اور عدلیہ کے ساتھ ہر قرض چکانے پر اتری ہوئی ہے، ملک و عوام کی سلامتی و فلاح کے لئے مذکرات نام کی کوئی چیز سامنے آنہیں رہی جبکہ غیر جانبدار دانشور، وکلائ، صحافی اور زندگی کے دیگر شعبوں سے وابستہ افراد مذکرات اور عفو و درگزر پر زور دیتے ہیں لیکن اس وقت نظر یہ آرہا ہے کہ عمران خان کی پی ٹی آئی کو اس انداز میں روندنا ہے کہ کوئی ان سب کو چھٹی کا دودھ یاد آجائے، اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت حکومت اپنے مقاصد اور عزائم میں کامیاب ہوتی نظر آرہی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ظاہراً کامیابی کے جھنڈے گاڑنے کے بعد بھی ملک و قوم کوناقابل تلافی نقصانات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، پابندیوں’ اذیتوں’ جیلوں اور دبائو سے سیاسی پارٹیاں کبھی ختم نہیں ہوئی ہیں ورنہ آج پی پی پی کا نام تک نہ سنا جاتا، اسی طرح اے این پی وغیرہ۔ ایم کیو ایم کے سارے دھڑوں کے دلوں میںاب بھی ”بھائی صاحب” کی یاد محفوظ ہے اور پھر یہ کہ وقت بدلتے دیر نہیں لگتی’ سیاست میں آج کے مخالفین کل کے حلیف اورآج کے حلیف کل کے حریف بھی ہوسکتے ہیں، اس لئے حکومت کو اگر طاقتوروں کی آشیر باد بھی حاصل ہے تو انہیں یاد رکھنا ہوگا کہ عمران خان کی پی ٹی آئی تیسری قوت کے طور پرمسلم لیگ نون اور پی پی پی کے درمیان ”میثاق جمہوریت” پردستخط ہونے کے بعد ہی منظرعام پر آئی تھی، کیا آج مقتدر سیاسی جماعتیں بالخصوص پیپلز پارٹی اس بات کا احساس نہیں کرسکتی کہ موجودہ حالات سے ان کے منشور و دستور اور سیاسی تاریخ کوکتنے دھچکے لگ ر ہے ہیں کیا خواتین کے حقوق اور سیاسی قیدیوں کے حوالے سے پیپلز پارٹی ہمیشہ کریڈٹ لینے کی دعویدار نہیں رہی ہے، کیا سیاست کے میدان میں خواتین کی آمد میں شہید بے نظیر کا بہت اہم کردارنہیں رہا ہے، پیپلز پارٹی آج پی ٹی آئی کی خواتین پر قید و بند میں صعوبتوں اور گھروں میں اور گھروں سے باہر چادر و چاردیواری کی حرمت مجروح ہونے پر اس لئے خاموش ہے کہ پی ٹی آئی ان کی حریف ہے، کیا جمہوری نظام کے ہوتے ہوئے فوجی عدالتوں کا قیام پیپلزپارٹی کو منظور ہے ؟ اس وقت پی ٹی آئی کی خواتین سیاسی کارکنوں کے ساتھ جو غیرانسانی سلوک ہو رہا ہے اور عدالتوں سے رہائی کے باوجود بغیر کسی ثبوت و الزام کے دوبارہ جیل میں ڈالنے کا عمل جاری ہے، پاکستانی سیاست میں خواتین کے کردار کے مستقبل میں مایوسی لانے کے مترادف نہ ہوگا لہٰذا اس وقت پیپلز پارٹی کے لئے بہت اچھا موقع ہے کہ وہ سیاسی تلخیوں کو بھلا کر پی ٹی آئی کے ساتھ بھی بقائے باہمی کا ایک میثاق تیار کروا کر ملک میں غیر جانبدار و شفاف انتخابات کے انعقاد کیلئے اپنا کردارادا کرے کیونکہ پیپلز پارٹی ہی آئین کی بانی اور جمہوریت کی علمبردار ہونے کی دعویدار ہے اور اس کی اس حیثیت کو موجودہ صورت حال کے جاری رہنے سے ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کے خدشات بڑھ رہے ہیں۔

مزید پڑھیں:  سرکاری و نجی ہائوسنگ سکیموں کی ناکامی