دستور کی حاکمیت کا خواب

پارلیمنٹ کے اندر اور باہر سیاستدان یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ ملک میں سب سے مقدس اور بالادست دستورِ پاکستان ہے، بظاہر اس سے اختلاف کی رتی برابر بھی گنجائش نہیں مگر یہ پوچھنے میں امر مانع بھی کوئی نہیں کہ آخر کیا وجہ ہے کہ اس ملک میں سب سے بے توقیر آئین ہی ہوا، اس میں لکھے گئے شہری، سیاسی، مذہبی اور معاشی حقوق کی فراہمی و حفاظت کے ساتھ اس امر کو یقینی بنانے کیلئے کوئی کوشش نہیں کی گئی کہ دستور میں دیئے گئے حقوق کے انفرادی و گروہی حق میں کوئی مداخلت کرے نہ ہی کوئی شخص اور گروہ کسی دوسرے کے حقوق کو پامال کرنے کی کوشش کرے۔ یہ سوال آج اس لئے بھی اہم ہے کہ پارلیمان نے رواں سال کو دستور پاکستان کی گولڈن جوبلی کا سال قرار دیا ہے، ابھی چند ہفتے قبل پارلیمنٹ میں دستور کی گولڈن جوبلی کے حوالے سے تقریبات کا انعقاد بھی ہوا ان تقریبات سے خطاب کرنے والوں نے ایک ایک کرکے ان تمام شقوں کا ذکر کیا جو فرد کے ریاست اور ریاست کے فرد پر حقوق کی نشاندہی کرتی ہیں، افسوس کہ کسی نے اس امر کی جانب توجہ نہیں دلائی کہ ریاست اپنے فرائض کی ادائیگی میں ناکام رہی ہے نہ ہی کسی نے ان ناکامیوں کا تجزیہ کرتے ہوئے ان مسائل پر لب کشائی کی جو دستور سے انحراف کی بدولت پیدا ہوئے اور اب ہر گزرنے والے دن کے ساتھ سنگین تر ہوتے جا رہے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ دستور کی بالادستی ریاست کے فرائض، بلاامتیاز انصاف یہ سب اب لذت دہن بڑھاتے رہنے کے سامان ہیں اور ضرورت کے وقت ان کا تذکرہ کرکے جی بہلالیا جاتا ہے ورنہ یہ امر تو ہر کس و ناکس پر دوچند ہے کہ دستور میں مساوات اور بلاامتیاز انصاف کے ساتھ، تعلیم روزگار اور صحت کے شعبوں کے حوالے سے ریاست کی ذمہ داریوں کا تذکرہ ہے، ان کی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کی ریاست نے کبھی کوشش نہیں کی، الٹا شہریوں سے
ہر قدم پر قربانی ضرور طلب کی گئی، ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ دستور کی گولڈن جوبلی مناتے وقت پارلیمنٹ کی ایک خصوصی کمیٹی قائم کردی جاتی جو اس امر کا جائزہ لیتی کہ آخر کیا وجہ ہے کہ 50سال بعد بھی ایک عام شہری یہ سمجھتا ہے کہ وہ سرزمین بے آئین میں مقیم ہے نیز یہ کہ یہ کمیٹی یہ بھی دیکھتی کہ شہریوں کو دستوری حقوق فراہم کرنے میں رکاوٹیں کیا ہیں اور انہیں دور کیسے کیا جاسکتا ہے؟ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ جس وقت آئین سازی ہو رہی تھی تب تو اس سے کچھ عرصہ قبل ہی سقوط مشرقی پاکستان ہوا تھا ہونا یہ چاہئے تھا کہ سقوط مشرقی پاکستان کی بنیادی وجوہات کو پیش نظر رکھا جاتا اور اس بات کو یقینی بنایا جاتا کہ باردیگر اس کی طرح کی بالادستی قائم نہ ہونے پائے جس سے ماضی کی طرح کے مسائل جنم لیں یہ بھی دیکھا جانا چاہئے تھا کہ مشرقی پاکستان کی اکثریت کو مغربی پاکستان کی اقلیت کے مساوی بنانے کے قانون سے جو خرابیاں پیدا ہوئیں وہ نئے حالات اور زمینی حقائق میں ایسے مسائل پیدا کرنے کا موجب نہ بنیں کہ قبل ازیں اکثریت شاکی تھی اور اب فیڈریشن کی چھوٹی اکائیاں اس امر کی شاکی ہوں کہ مساوات اور انصاف پر مبنی عادلانہ نظام نہ ہونے کی وجہ سے ان کے حقوق پامال ہورہے ہیں، اس ضمن میں یہ رائے بھی خصوصی اہمیت کی حامل ہے کہ دستور سازی کے وقت اس بات کا خیال نہیں رکھا گیا کہ پاکستانی فیڈریشن ایک کثیرالقومی فیڈریشن ہے اور دستور سازی کے عمل میں قوموں کے مساوی حقوق کے ساتھ تہذیبی، جغرافیائی، تاریخی اور کلچر و زبان کی بنیاد پر صوبوں کی ازسرنو حد بندیاں ازحد ضروری ہیں، ہمارے دستور ساز اگر ابتداء ہی میں حقیقت پسندانہ عمل اپناتے ہوئے ان تمام امور کی روشنی میں تنازعات کے مستقل حل کیلئے وفاقی دستوری عدالت کی آئینی حیثیت طے کردیتے تو بعد کے ماہ و سال میں ان کئی مسائل سے محفوظ رہا جاسکتا تھا جن کی وجہ سے فیڈریشن اور صوبوں اور پھر قوموں کے درمیان بداعتمادی نے جنم لیا، مثال کے طور پر فیڈریشن میں نئے صوبوں کے قیام کے معاملے کو ابتدائی طور پر ہی خوش اسلوبی سے طے کرلینا جانا چاہئے تھا اس کے لئے دیگر ممالک کے دساتیر سے رہنمائی حاصل کی جاسکتی تھی، بھارت سمیت متعدد ممالک کے دستور میں نئے صوبوں کے قیام کا بہت سہل طریقہ کار موجود ہے، ہمارے ہاں نجانے کس سوچ کے تحت اسے اتنا مشکل بنا دیا گیا ہے کہ قومی شناخت کی بنیاد پر نئے صوبے کا قیام جوئے شیر لانے سے بھی زیادہ کڑا عمل ہے، اسی طرح تعلیم، صحت، روزگار اور وسائل کی منصفانہ تقسیم کا معاملہ لکھ تو دیا گیا اس پر یقینی عمل کی صورت کیا ہوگی اس کا کوئی جواب نہیں۔ دنیا بھر کے قانون ساز اپنے ملکوں میں آبادی کے پھیلائو کے عمل کے تناظر میں20 سے30 سال کی پیشگی منصوبہ بندی کرتے ہیں، ہمارے دستور ساز روز اول سے سڑکیں بنوانے، واپڈا، سوئی گیس اور ٹیلیفون کے کنکشن دلوانے کیساتھ ٹھیکوں میں مخصوص کمیشن حاصل کرنے میں دلچسپی رکھتے آرہے ہیں حالانکہ بنیادی شہری سہولتیں فراہم کرنا دستور سازوں کا نہیں منتخب بلدیاتی اداروں کا کام ہے، اندریں حالات یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ قانون سازوں کو نہ صرف اس ملک کے بڑھتے ہوئے مسائل کا حل تلاش کرنا چاہئے بلکہ
فیڈریشن اور صوبوں نیز قوموں میں بڑھتی ہوئی بداعتمادی اور اس سے جنم لینے والی مایوسی پر غوروفکر کرنا ہوگا، غوروفکر کے وقت یہ بات بھی پیش نظر رکھنا ہوگی کہ آئین سازی ہورہی تھی تو اس ملک کی آبادی مشکل سے 6 کروڑ کے قریب تھی آج نصف صدی بعد یہ آبادی25 کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے، سوچا جانا چاہئے کہ جو وسائل اور انتظام 6 کروڑ کی آبادی کیلئے تھے ان سے25 کروڑ کیلئے انتظام کیسے ممکن ہے، ثانیا یہ کہ بڑے شہروں کے بے ہنگم پھیلائو کو روکنے کیلئے نئے شہر بسانے کا قانون کیوں نہیں بنایا گیا، ویسے تو آبادی کے طوفانی پھیلائو کو روکنے کیلئے قانون سازی کی جانی چاہئے تھی، مسائل فقط یہی نہیں جن کا بالائی سطور میں ذکر ہوا ہے، ان سے بھی زیادہ گھمبیر مسائل ہیں اور کچھ تیزی سے بڑھتے چلے آرہے ہیں، سیاسی و معاشی عدم استحکام، بیروزگاری، غربت، اقربا پروری، طبقاتی استحصال جیسے مسائل بھی منہ چڑارہے ہیں، مروجہ سیاست اقتدار طلبی کے گرد گھومتی ہے جبکہ سیاسی عمل کا بنیادی مقصد ایک ایسے نظام کے قیام کو یقینی بنانا ہوتا ہے جس میں ہر خاص و عام اپنی صلاحیت کا مظاہرہ کرے، افسوس کہ ہمارے یہاں تعلیم اور صحت کے شعبوں میں ریاست نے اپنا فرض ادا کرنے کی بجائے ان دونوں کو بھی سرمایہ داروں کے حوالے کر دیا، نتیجہ سب کے سامنے ہے، مذہبی آزادیاں دستور میں تو لکھی ہیں مگر عملی صورت یہ ہے کہ ہر شخص دوسرے کی مذہبی آزادی میں مداخلت کو حق سمجھتا ہے مکرر یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ ملک میں دستور کی بالادستی کی باتیں بہت ہوچکیں، اب ضرورت اس امر کی ہے کہ دستور کی حقیقی معنوں میں بالادستی قائم ہو اس کے لئے پارلیمان کو اپنی ذمہ داریاں بطریق احسن ادا کرنا ہوں گی تاکہ ایک حقیقی جمہوری فلاحی مملکت کا خواب شرمندہ تعبیر ہو پائے۔ امید ہے کہ سیاسی جماعتیں اور ارکان پارلیمنٹ ان معاملات میں حقیقت پسندی کا مظاہرہ کریں گے۔

مزید پڑھیں:  سلامتی کونسل کی قراردادکے باوجوداسرائیل کی ہٹ دھرمی