اندرونی معاملات اور آئی ایم ایف

مشرقیات

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا عدل و انصاف اسلامی تاریخ میں ایک مستقل باب اور مستقل موضوع ہے، جن کے ہاں امیر و غریب ،آقا وغلام عدل کے ترازو میں برابر ہوتے تھے، عدل و انصاف میں دوست و دشمن کی کوئی تمیز نہ ہوتی، حضرت عمر کے دورِ خلافت میں مدینہ منورہ میں زلزلہ آیا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اللہ تعالی کی حمد و ثناء کی، زمین کی جنبش بدستور باقی تھی، آپ کے ہاتھ میں درہ تھا، وہ زمین پر مارا اور زمین سے مخاطب ہوکر ارشاد فرمایا: اے زمین! اللہ کے حکم سے ساکت ہوجا! ٹھہر جا! کیا عمر نے تجھ پر عدل و انصاف کو قائم نہیں کیا؟! بس یہ کہنا تھا کہ زمین ساکت ہوگئی اور زلزلہ ختم ہوگیا۔ یہ ہے عدل و انصاف کی برکت۔
آج ہمارے معاشرے میں انفرادی اور اجتماعی سطح پر یہ عدل و انصاف اٹھ چکاہے، نظامِ عدل کو زنگ لگ چکا ہے، نہ حکمران عادل رہے، نہ قاضی عادل رہے، نہ معاشرے کا عام فرد اس عدل و انصاف کے پیمانے پر قائم رہا جس کی وجہ سے ہم تنزلی کا شکارہیں، عمومی طور پر جس کو جہاں کچھ طاقت حاصل ہوتی ہے، وہ وہاں ظلم اور افراط و تفریط کا شکار ہو جاتاہے۔ اس کے بہت سارے مناظر ہمارے سامنے آتے ہیں۔
کوئی عہدے کی بنا پر عدل سے ہٹ جاتا ہے، کوئی اپنی چودھراہٹ کی بناء پر عدل سے ہٹ جاتا ہے، کوئی و ڈیرہ ہے تو اسے یہ زعم عدل و انصاف پر قائم رہنے نہیں دیتا، کسی کے پاس وزارت ہے، کسی کے پاس مال ہے، کسی کے پاس تعلقات ہیں اور ان چیزوں کی وجہ سے انسان مغرور ہوکر دوسروں کے حقوق کو پامال کر رہا ہے اور یہ بھول جاتا ہے کہ ایک ایسی طاقت موجود ہے، ایک ایسی ذات موجود ہے جو سب طاقتوں سے بڑھ کر ہے جس کے سامنے ساری مخلوق کا جاہ وجلال ، رعب و دبدبہ کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتا اور وہ ذات جب کسی کو اس کے ظلم اور ناانصافی کی وجہ سے پکڑتی ہے تو پھر مہلت نہیں دیتی۔
ہمارا مذہب ہر ہر فرد کو چاہے وہ حاکم ہو، پھرحاکمِ اعلی سے لے کر اس شخص تک جو ایک یا دو افراد کا ذمہ دار ہو، ہر ایک کو عدل کا حکم دیتا ہے اور عدل و انصاف زندگی میں ہر شعبہ میں مقصود ہے، چاہے گواہی کی صورت ہو، تقسیم کی صورت ہو، گفتگو کی صورت ہو، فیصلے کی صورت ہو یا اس کے علاوہ۔ اس لئے رسول اللہ ۖنے ایسے لوگوں کی بڑی فضیلت بیان فرمائی ہے، صحیح مسلم کی روایت میں رسول اللہ ۖنے فرمایا : وہ لوگ جو انصاف کرنے والے ہیں، وہ قیامت کے دن اللہ رحمن کے دائیں جانب نور کے منبروں پر ہوں گے اور حدیث کے آخر میں فرمایا: یہ وہ لوگ ہیں جو دنیا میں اپنے فیصلوں میں، اپنے متعلقین میں، اور اپنے ماتحتوں، اور ذمہ داریوں کے لحاظ سے عدل و انصاف سے کام لینے والے تھے۔

مزید پڑھیں:  پیغام ِ فرید…اپنی نگری آپ وسا توں''