ترکی کی صدی کا خواب

عالم اسلام کے ممتاز راہنما رجب طیب اردگان ایک بار پھر ترکی کے صدر منتخب ہوگئے ہیں ۔ جس کے ساتھ ہی ان کا اقتدار تیسری دہائی میں داخل ہوگیا ہے ۔طیب اردگان اس بار خاصی مشکل صورت حال کا سامنا کررہے تھے ۔عالمی قوتیں تو پہلے ہی ان پر نامہرباں ہیں مگر اس بار اندرونی سیاسی مخالفین نے ایک مضبوط انتخابی اتحاد قائم کرکے ان کو ٹف ٹائم دینے کی ٹھان رکھی تھی۔ان کا مقابلہ ایک سینئر او رتجربہ کار سیاست دان قلیچ دار اوغلو سے تھا جو سابق بیوروکریٹ بھی ہیں ۔قلیچ دار اوغلو کو چھ جماعتی اتحاد نیشن الائنس نے اپنا امیدوار نامزد کیا تھا ۔قلیچ دار اوغلو کا نعرہ شام کی جنگ میں ترکی آنے والے پناہ گزینوں کو ملک سے نکال باہر کرنا اوراردگان کے دور میں یورپ کے ساتھ خراب ہونے والے تعلقات کو دوبار ہ معمول پر لانا تھا۔دوسری جانب ترکی کے حالیہ زلزلے اور بگڑتی ہوئی معاشی صورت حال نے طیب اردگان کی مشکلات کو بڑھا دیا تھا ۔یہ تاثر مل رہا تھا کہ ترک عوام اب طیب اردگان کے اقتدار سے بیزار ہو چکے ہیں اور وہ نئی قیادت چاہتے ہیں ۔یہ تاثر اس وقت زائل ہونا شروع ہوا جب طیب اردگان عوام میں نکلے تو ان کے بڑے بڑے جلسے ہونے لگے جو اس بات کا ثبوت تھا کہ طیب اردگان اپنے ووٹروں اور حامیوں پر بدستور اپنی گرفت قائم رکھے ہوئے ہیں۔انتخابات کے پہلے مرحلے میں کوئی بھی امیدوار مطلوبہ تعداد میں ووٹ حاصل نہ کر سکا مگر طیب اردگان کو اپنے قریب ترین حریف قلیچ دار اوغلو پر معمولی سی برتری حاصل رہی ۔ری پولنگ کا اعلان ہوا تو صاف لگ رہا تھا کہ طیب اردگان اپنی معمولی برتری کو بڑھا کر فیصلہ کن برتری اور فتح میں بدلنے میں کامیاب ہوجائیں گے ۔پہلے مرحلے میں ترکی کے ووٹر کے رجحان کا اندازہ ہوگیا تھا اس لئے ری پولنگ میں کسی غیر معمولی تبدیلی کا امکان بظاہر باقی نہیں رہا تھا ۔ری پولنگ میں ایسا ہی ہوا اور طیب اردگان صدارتی انتخابا کے فاتح قرار پائے اور انہوں نے اپنی فتح کا باضابطہ اعلان کر دیا ۔وہ دو عشروں سے جاری اپنی سیاسی کامیابیوں کو بچانے میں کامیاب ہو گئے اور اب طیب اردگان دوہزار اٹھائیس تک ترکی کے صدرہوں گے ۔ترکی کے صدارتی انتخابات اس لحاظ سے بھی اہم تھے کہ رواں برس ترک اور یورپ کے درمیان سوسالہ معاہدہ لوزان ختم ہو گیا ہے جس کے بعد ترکی اپنے معدنی وسائل سے استفادہ کرنے سمیت بہت سی ناروا پابندیوں سے آزاد ہورہا ہے ۔یہ پابندیاں یورپی فاتحین نے اس وقت نافذ کی تھیں جب وہ خلافت عثمانیہ کا خاتمہ کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے اور انہوں نے ترکی میں ایک مصنوعی نظام قائم کر لیا تھا ۔ترک ایک مفتوحہ علاقہ تھا اور فتح اور شکست کے اس کھیل میں ایک مفتوحہ علاقے کو سوسال کے لئے لوزان معاہدے کی نادیدہ پابندیوں میں جکڑ دیا گیا تھا ۔یہ ایک عبرت کا سامان بھی تھا کہ کس طرح فاتح قوم اپنے مفتوحہ علاقے اور قوم کو کچھ آزادیاں دے کر آنے والے زمانوں کے لئے پابندیوں میں
جکڑے رکھتی ہے۔اب سوسال پورے ہوچکے ہیں اور یہ معاہدہ بھی اپنی طبعی عمر پوری کرچکا ہے ۔مغربی طاقتیں اس معاہدے کے خاتمے کے بعد ترکی کو ایک بڑا رول ادا رکرتے ہوئے دیکھ رہی تھیں اور یہ بات ان کے لئے سوہان ِ روح تھی ۔ان کے خیال میں طیب اردگان جیسا مرد آہن اسلام اور مسلمانوں کے اتحاد کو عملی شکل دے سکتا ہے۔اسی خوف کے باعث طیب اردگان کو متعصب مغربی حلقوں میں پسند نہیں کیا جاتا ۔ ایک بار تو ناکام بغاوت کے ذریعے انہیںاقتدار سے بے دخل کرنے کے ساتھ ساتھ جان سے مارنے کی بھی کوشش کی گئی تھی مگر ترک عوام نے گھروں سے باہر نکل کر اس بغاوت کو ناکام بنادیا تھا ۔طیب اردگان نے اس بغاوت کی منصوبہ بندی کا الزام امریکہ کی ایجنسیوں پر عائد کیا تھا ۔اس بغاوت میں بظاہر فتح اللہ گولن کے ہمدرد نیٹ ورک کا کردار تھا مگر فتح اللہ گولن مدت دراز سے امریکہ میں مقیم ہیں ۔اس بغاوت کے بعد امریکہ اور اردگان حکومت کے تعلقات میں کشیدگی بھی دیکھی گئی تھی ۔ان انتخابات میں بھی مغرب نے جم کر اردگان مخالف کیمپ کی حمایت کی تھی مگر ترک عوام کے سامنے انہیں بادل نخواستہ سرِ تسلیم خم کرنا ہی پڑے گا ۔یوں تو پاکستان اور ترکی کے روابط حالات کے سردوگرم سے ماورا ہیں مگر طیب اردگان کے دور میں ان تعلقات میں مزید گرم جوشی آئی ہے ۔پاکستان نے ہمیشہ قبرض کے مسئلے پر ترکی کی حمایت کی ہے اور ترکی نے ہمیشہ کشمیر کے موقف کی حمایت کی ہے ۔طیب اردگان نے اس تعلق کو ایک نیا موڑ اور عنوان دیا ہے وہ پاکستان کے دکھوں میں رونے اور اس کی خوشیوں میں ہنسنے میں ساتھ ہوتے ہیں۔رجب طیب اردگان کی فتح فلسطین عوام اورکشمیریوں کے لئے خوشی اور انبساط کا باعث ہے کیونکہ اس وقت دنیا میںفلسطینیوں اور کشمیریوں کا سچااور مخلص ہمدرد کوئی شخص ہے تو بلاشبہ وہ طیب اردگان ہی ہے۔جنہوں نے دنیا کے ہر فورم پر بھارت اور اسرائیل کی ناراضگی کی پرواہ کئے بغیر ان مظلوم لوگوں کے حق میں آواز بلند کی ۔فلسطین کی حمایت فریڈم فلوٹیلا سے لیکر کشمیرمیںپانچ اگست کا معاملہ ہو یا جی ٹونٹی کا سری نگر میں انعقاد طیب اردگان نے ان کی حمایت کا حق اداکیا ہے ۔جی ٹونٹی اجلاس میں چین کے بعد او آئی سی کے جس ملک نے سری نگر جانے سے انکار کیا وہ ترکی ہی تھا جس کے بعد باقی مسلمان ملکوں کے لئے سری نگر جانا آسان نہیں رہا اور وہ کانفرنس کے اس حصے کابائیکاٹ کرنے پر مجبور ہوئے۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاسوں میں طیب اردگان کشمیر کا ذکر کرنا نہیں بھولتے اور یہ ذکر رسمی کارروائی تک محدود نہیں ہوتا بلکہ وہ کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی بھرپور وکالت کرتے ہیں ۔اس لحاظ سے طیب اردگان کی فتح فلسطینیوںاور کشمیریوں کے لئے حوصلہ افزا ہے۔یہی وجہ ہے کہ طیب اردگان کی فتح کا جشن غزہ میں دیوانہ وار اور بے ساختہ انداز میں منایا گیا ۔طیب اردگان نے اپنی جیت پر اسے ترکی کی صدی کا آغاز قرار دیا ہے ۔ غیر فعالیت کی سوسالہ نادیدہ زنجیروں سے آزاد ہوتا ہوا ترکی اپنی صدی کے خواب کو تعبیر دے سکے گا ؟ اس کا فیصلہ آنے والے وقتوں میں ہوتا جا ئے گا ۔

مزید پڑھیں:  ڈیٹا چوری اور نادرا؟