کیا خبر ہے کہ گزاریں گے کہاں عید اب کے؟

کوئی موقع محل بھی ہوتا ہے ‘مگر یہاں جو خبر آئی ہے اگرچہ وہ عید کے حوالے سے ہے ‘یعنی رویت ہلال کمیٹی کے ارد گرد گھوم رہی ہے ‘ مگر وہ جو پشتو زبان میں کہتے ہیں کہ ”عید گزر جائے تو مہندی دیوار پرتھوپو” گویا اس ضرب المثل میں بھی موقع محل ہی کا ذکر ہے ‘ تو خبر یہ ہے کہ قومی اسمبلی نے پاکستان رویت ہلال بل 2022ء منظور کرلیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے چاند دیکھنے کی جھوٹی شہادت دینے والوں کو پچاس ہزار روپے جرمانہ اور تین سال قید ہو گی ‘ اب مرکزی اور زونل رویت ہلال کمیٹیوں کے علاوہ ڈپٹی کمشنر بھی چاند دیکھ سکے گا ‘ کسی نجی رویت ہلال کمیٹی کو نہیں مانا جائے گا ۔ اس پر ہمیں مرزا محمود سرحدی یاد آگئے جنہوں نے 60 ء کی دہائی میں کہا تھا
ہماری عید ہے ہم ہر طرح منائیں گے
ہمارا شیخ کے فتوے پہ اعتبار نہیں
ہمارے ڈپٹی کمشنر نے چاند دیکھا ہے
ہمیں خبر ہے کہ وہ غیر ذمہ دار نہیں
دراصل جس دور میں مرزا محمود سرحدی مرحوم نے یہ قطعہ کہا تھا اس دور میں عید الفطر کے بارے میں شہادتیں مسجد قاسم علی خان ہی میں جسے پوپلزئی مسجد بھی کہا جاتا تھا (اب بھی کہا جاتا ہے) اکٹھی ہوتی تھیں مگر عید ہونے کی اطلاع اس دور کے ڈپٹی کمشنر کے ایماء پررات گئے یوں کی جاتی کہ فائر بریگیڈ کی لاری(بس) کو تحصیل گورگٹھڑی سے جہاں یہ گاڑیاں کھڑی کی جاتیں اور آگ لگنے کی اطلاع پر آگ بجھانے کے لئے بھیجی جاتیں ‘ نکال کر سارے شہر میں ٹن ٹن ٹن ٹن والی گھنٹی بجا بجا کر شہریوں کو اگلی صبح عید منانے کا پیغام دیا جاتا ۔اب اس رویت ہلال بل کا جہاں تک تعلق ہے تو گزشتہ عید الفطر کے حوالے سے مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین پر مبینہ غلط فیصلے کے حوالے سے ماسوائے خیبر پختونخوا کے ملک کے دیگر علاقوں سے کچھ تنقیدی آراء سامنے آئیں اور ان کے فیصلے کو مشکوک قرار دیاگیا ‘ اس لئے اگر محولہ رویت ہلال بل کے حوالے سے ایسی کوئی صورتحال پیدا ہو جائے یعنی خود مرکزی رویت ہلال کمیٹی ہی تنقید کی زد میں آجائے تو اس ضمن میں سزا کا مستوجب کون گردانا جائے گا ‘ اور تنقید کرنے والوں کا ٹھکانہ کہاں ہوگا یعنی بقول مرزا محمود سرحدی مرحوم
کیا خبر ہے کہ گزاریں گے کہاں عید اب کے؟
مفتی شہر یہ کر بیٹھے ہیں تنقید اب کے
وہ جو عید گزرنے کے بعد مہندی کی دیوار پر تھوپنے کی بات ہم نے کی ہے تو اس کا جواز یہ ہے کہ یہ بل اصولی طور پر عید بلکہ رمضان سے بھی پہلے پاس ہونا چاہئے تھا ‘ ویسے بھی اس کے عنوان کو دیکھیں تو یہ ”پاکستان رویت ہلال بل 2022” ہے ‘ یعنی یہ بل یقینا گزشتہ سال ہی اسمبلی میں لایا گیا ہو گا اور پاس 2023ء میں ہوا ‘ اس لئے اگر بل پاس ہونے میں اتنی تاخیر نہ ہوتی تویقینا گزشتہ رمضان سے پہلے ہی اس کو سٹیبل کرکے پاس کرا لیا جاتا جبکہ ابھی سینیٹ میں اسے پیش کرکے منظور کرانے کے مراحل بھی طے ہونا ہیں ‘ جو آسانی سے ہو جائیں گے کیونکہ اس بل پر زیادہ بحث مباحثے کی ضرورت بھی نہیں پڑے گی۔ تاہم سرکاری بل میں نجی رویت ہلال کمیٹیوں پر پابندی لگا کر ایک پرانا قضیہ نئے الفاظ میں سامنے لانے کی کوشش کی گئی ہے یعنی بقول ڈاکٹر انعام الحق جاوید
چاندنکلا ہے یا نہیں نکلا
ہر جگہ ایک گفتگو ہے میاں
چاند نکلے تو اس کی مرضی سے
بس یہی اس کی آرزو ہے میاں
ایک مدت کے بعد ڈپٹی کمشنر کو چاند دیکھنے کے حوالے سے ”مستند شہادت” کا درجہ دے کر ایک لحاظ سے اچھا ہی کیا گیا ہے کیونکہ ان دنوں اس عہدے (ڈپٹی کمشنر) پر ماشاء اللہ جوان بلکہ نوجوان ہی کام کرتے نظر آتے ہیں ‘ جبکہ جس دور میں مرزا محمود سرحدی نے ڈپٹی کمشنر کے چاند دیکھنے اور عید منانے کے حوالے سے فیصلے کرنے کا تذکرہ کیا ہے ‘ اس دور میں سینئر ترین بیورو کریٹ ہی ان عہدوں یعنی ڈپٹی کمشنر اور کمشنر پر تجرہ کار ہونے کے ناتے ہی مقرر کئے جاتے اور ان میں سے اکثر نظر کمزور ہونے کی وجہ سے معنک ہوتے یعنی عینک استعمال کرتے ‘ اب ایسے کمزور نظر افراد سے دور افق پر چاند دیکھنے کی توقع کیونکر کی جا سکتی تھی ‘ اس لئے وہ بھی مقامی رویت ہلال کمیٹی (جنہیں اب نجی کمیٹی کا نام دیا جارہا ہے ) کے فیصلوں پر عملدرآمد کرتے تھے ‘ اور جہاں تک پشاور کی ”نجی” کمیٹی کا تعلق ہے تو یہ انگریز کے دور سے پوپلزئی خاندان کی علمی اور مذہبی خدمات کے حوالے سے مفتی شہاب الدین پوپلزئی کے دادا ‘ پردادا کے زمانے سے قائم ہے جبکہ مفتیوں کے خاندان ہونے کے ناتے انگریز حکمران بھی ان کی مذہبی حیثیت کو تسلیم کرتے تھے اور پاکستان بننے کے بعد بھی اس ”نجی”کمیٹی کی اہمیت کو تسلیم کیا جاتا تھا۔یعنی بقول امجد اسلام امجد(مرحوم)
جس طرف تو ہے ادھر ہوں گی سبھی کی نظریں
عید کے چاند کا دیدار بہانہ ہی سہی
گزرے دور کے ڈپٹی کمشنروں کی کمزور نظروں کا ذکر آیا تو آج سے لگ بھگ32/30 سال پہلے کی رویت ہلال کمیٹی کے ایک چیئرمین کی یاد آگئی ‘ ان کا تعلق سرائیکی بیلٹ سے تھا اور نظریں کمزور ہونے کی وجہ سے انہوں نے دبیز یعنی موٹے شیشوں کی عینک لگا رکھی ہوتی تھی ‘ ہمارے ریڈیو پشاور کے سٹیشن ڈائریکٹرحمید اصغر مرحوم عید کا چاند دیکھنے کے لئے قلعہ بالا حصار پر منعقد ہونے والی رویت ہلال کمیٹی کے اجلاس کی کوریج کے لئے گئے تھے ‘ تو دور بین کی مدد سے محولہ چیئرمین کو ہلال عید دکھانے کی کوشش کرتے ہوئے جب کہا گیا ‘ مفتی صاحب اس دوربین سے چاند دیکھیں تو موصوف نے سرائیکی زبان میں پوچھا ”کتھاں ای دوربین؟” سبحان اللہ ایسے ایسے لوگ رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین رہے ہیں’ یہ تووہی صورتحال تھی کہ ایک صاحب آنکھوں کے ڈاکٹر کے پاس نظرکا معائنہ کروانے گئے ڈاکٹر نے انہیں کہا کہ ذرا سامنے اس تحریر کو پڑھیں کہ کونسے حروف نظر آتے ہیں مریض نے کہا ‘ کونسی تحریر؟ کہا گیا سامنے بورڈ پر ‘ جواب آیا کونسا بورڈً کہاگیا ‘ سامنے دیوار پر ‘ مریض نے کہا ‘ کونسی دیوار؟؟ اب ایسی صورتحال کی کیا بات کی جائے اور رویت ہلال کا قضیہ کیسے ختم ہو۔ یعنی
تواسے اپنی تمنائوں کامرکز نہ بنا
چاند ہر جائی ہے ہر گھر میں اتر جاتا ہے

مزید پڑھیں:  تجربہ کرکے دیکھیں تو!