راہیں جدا کرنے کا تسلسل مگر کب تک۔۔۔۔

تحریک انصاف خیبر پختونخوا کے صدر پرویزخٹک بھی بالآخر پی ٹی آئی چھوڑ گئے جبکہ ان کی پریس کانفرنس میں سابق سپیکراسد قیصر کی خاموش موجودگی بھی شکوک و شہبات کا باعث امر ہے ۔ سابق وزیراعلیٰ پرویز خٹک گزشتہ انتخابات کے بعدبھی قیادت سے تھوڑے دور ہوگئے تھے ان کو پارٹی میں صوبہ خیبر پختونخوا کی قیادت دینے کے بعد شاید وہ خلیج کم نہ ہو سکی بہرحال اس پس منظر کی حقیقت یا عدم حقیقت سے قطع نظر نو مئی کے واقعات کے بعد علیحدگی کا جو ریلا آیا ہے ان کو بھی اسی ریلا کا شکار اس لئے گردانا جاناچاہئے کہ وہ کسی پراسرار ملاقات سے قبل پوری طرح پارٹی قیادت کے ساتھ کھڑا رہنے کے لئے پرعزم تھے ۔ پرویز الٰہی کی گرفتاری اور پرویز خٹک کی علیحدگی کے ساتھ پنجاب میں ممکنہ طور پر اور خیبر پختونخوا میں عملی طور پرپارٹی کی قیادت کا عہدہ خالی ہو گیا ہے تحریک انصاف میں عہدے پر کرنا کوئی مسئلہ نہیں اور نہ ہی اس طرح کی جبری علیحدگی سے پارٹی کے ووٹ بینک پر اثر پڑ سکتا ہے البتہ تحریک انصاف ماضی میں غلطیوں اور موجودہ صورتحال میں معاملہ فہم افراد کی اشد ضرورت سے انکار نہیں کیا جاسکتا سیاسی تلاطم سے ہٹ کر سابق گورنر پنجاب چوہدری سرورکا یہ بیان قابل غور ہے کہ عمران خان ان لوگوں کو قریب کرتے ہیں جو ان کو زیادہ نقصان پہنچاتے ہیں۔ان تمام حالات و واقعات میں کسی بھی سطح پر سیاسی استحکام کی طرف رجوع نظر نہیں آتا یہاں تک کہ عمران خان اس اعتراف کے باوجود کہ وہ اکیلے رہ گئے ہیں اس امر پر ڈٹے ہوئے ہیں کہ جب بھی انتخابات ہوں ان کی جماعت ہی کامیابی حاصل کرے گی ان کی جماعت کی مقبولیت سے انکار نہیں لیکن اگر ان حالات کو سنبھالنے میں تحریک انصاف کامیاب نہ ہوئی اور اپنی جماعت کو بچانے کے لئے ایک قدم پیچھے ہٹ کر مصلحت کے تقاضوں کوسمجھنے میں غلطی کی گئی تو حالات مختلف بھی ہوسکتے ہیںاس وقت سیاسی منظر نامے پر یکطرفہ اور ایک ہی سمت پر تخریبی توجہ کا جو سلسلہ جاری ہے ملکی سیاست میں یہ کوئی نئی بات نہیں البتہ جس جماعت کے ساتھ جو ہو رہا ہوتا ہے یہ اس کی قیادت کا ضرور امتحان ہوتا ہے کہ وہ ان حالات کا مقابلہ کس انداز سے کرتی ہے فی الوقت تحریک انصاف میں اس ضمن میں حکمت عملی کی کمی محسوس ہوتی ہے ۔ ماضی سے حال تک جمہوری عمل کے بارے میں غیر جانبدارانہ نقطہ نظر اختیار کرنے کے بجائے، ماضی کی مشق یہ رہی ہے کہ جب بھی کسی مقبول سیاسی قوت سے جمود کو خطرہ لاحق ہونے لگے تو اس کا مقابلہ کرنے کے لیے سیاسی مساوات میں نئے متغیرات متعارف کرائے جائیں۔ (ق) لیگ، ایم کیو ایم حقیقی اور پاک سرزمین پارٹی کو مسلم لیگ (ن) اور ایم کیو ایم سے الگ کر دیا گیا۔ایسا لگتا ہے کہ پی ٹی آئی کے کئی رہنما جنہوں نے حال ہی میں اپنی پارٹی کو چھوڑ دیا اور کہا کہ وہ سیاست سے علیحدگی اختیار کر رہے ہیں، شاید پہلے ہی ایک نئے تجربے کے لیے تیار ہو چکے تھے۔پاکستان تحریک انصاف کو 9 مئی کے واقعات کی بھاری قیمت چکانا پڑی ہے۔ یہ اپنے انتہائی پرجوش حامیوں اور ہمدردوں کے خلاف کریک ڈان کے نتیجے میں کمزور دکھائی دیتی ہے، اور کئی اہم افراد کے اخراج سے کمزور ضرورہوئی ہے۔ لیکن ایک مقبول جماعت کو اس طرح سے ختم کرنے کی مساعی نہ تو ماضی میں کامیاب ہوئی ہیں اور نہ ہی اب کامیاب ہونے کا امکان ہے بشرطیکہ تحریک انصاف بھی ماضی کی جماعتوں کی طرح تہہ در تہہ اپنی سیکنڈ و تھرڈ لائن کو بچاسکے فی الوقت ایسا ہوتا نظر نہیں آتا۔ ریاست کے حد سے زیادہ اقدامات انہیں عام لوگوں کی نظروں میں بڑے شہیدوں میں تبدیل کرسکتے ہیں ملک کو جن چیلنجوں کا سامنا ہے، خاص طور پر جو اس کی تیزی سے ڈوبتی ہوئی معیشت سے پیدا ہوئے ہیں، یہ صورت حال ایک ٹک ٹک بم کی نمائندگی کرتی ہے۔ان حالات میں امکان ہے کہ بہت جلد بھوکے اور مایوس لوگ سڑکوں پر سیاسی کارکنوں کے ساتھ شامل ہوں گے۔اس پس منظر میں پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپرنسی نے حکام نے درست رائے پیش کی ہے۔ پلڈاٹ نے کہا ہے کہ "صرف ایک آزادانہ اور منصفانہ اور بروقت انتخابات ہی پاکستان میں سیاسی استحکام لا سکتے ہیں جس کی اشد ضرورت ہے۔ حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان فوری سیاسی مذاکرات کی ضرورت ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف تحریک انصاف سے بات کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے لیکن ملک کی خاطران کو ایسا کرنا چاہئے ۔سیاست میں جو غصہ، ناراضگی اور مایوسی پیدا ہو رہی ہے اسے انتخابات میں منصفانہ لڑائی کے ذریعے ہی محفوظ طریقے سے نکالا جا سکتا ہے۔ یہ خطرناک تجربات کو دہرانے کا وقت نہیں ہے جو صرف بدنامی اور ندامت پر ختم ہو سکتے ہیں۔ اسٹیک ہولڈرز کو ایک قدم پیچھے ہٹنا چاہیے اور جمہوریت کو اپنا راستہ اختیار کرنے دینا چاہیے۔ پورے پاکستان کو اپنی انا کا شکار نہیں بنانا چاہیے۔

مزید پڑھیں:  بیرونی سرمایہ کاری ۔ مثبت پیشرفت