نام میں کیا رکھا ہے!

پاکستان کی تاریخ میں افراد و شخصیات اور سیاسی جماعتوں پر پابندی کا تو سنتے آئے ہیں اور مغضوب علیہ افراد کا میڈیا وغیرہ پر بائیکاٹ کے احکام کا رصدار بھی کوئی نئی بات نہیں لیکن پیمرا نے تو بالکل وہی کام کیا جو ایک دیہاتی خاتون نے نماز پڑھتے ہوئے کیا تھا، پرانے زمانے میں جب خاوند یعنی میاں جی کا بہت رعب داب ہوا کرتا تھا خواتین کا اپنے سرتاج کا نام لینا خلاف ادب گردانا جاتا تھا، ایک خاتون کے میاں کا نام رحمت اللہ تھا اب نماز کے پڑھتے ہوئے سلام پھیرنے میں مشکل یہ آتی تھی کہ اسلام علیکم و رحمتہ اللہ میں رحمت اللہ صاحب کا ذکر آتا تھا تو سادہ لیکن اپنی دانست میں دانا خاتون نے السلام علیکم چھوٹوں کے ابا السلام علیکم چھوٹوں کے ابا کہہ کر معاملہ نمٹا دیا، اب حکم ہوا ہے کہ کپتان و خان کا میڈیا میں نام لینا منع ہے، خلاف ورزی کرنے والوں کو قانون کے مطابق سزا بھی دی جاسکتی ہے لیکن اب مشکل یہ ہے کہ گزشتہ چار پانچ برس سے کیا اپنے، کیا پرائے کیا دوست، کیا حریف، کپتان کا نام لئے بغیر کہاں گزارہ کر سکتے ہیں، خان و کپتان کو چاہنے والوں کیلئے تو کوئی مسئلہ ہی نہیں کیونکہ ان کی تو اکثریت اپنے قائد کو نام سے پکارتے ہی نہیں زیادہ تر کارکن تو ہمارے مرشد، ہمارے کپتان، ہمارے لیڈر، ہمارے قائد ا ور ہمارے خان کہہ کر پکارتے ہیں جہاں تک مخالفین یا سیاسی حریفوں کا معاملہ ہے تو ان کیلئے مشکل ضرور آن پڑی ہے کیونکہ ان میں سے اکثریت کپتان کو تاریخی طعنہ دینے اور اس کے ذریعے بہت کچھ کہنے کی غرض سے ”عمران نیازی ” کہہ کر پکارا کرتے تھے اور بعض سیاسی خواتین و حضرات تو اپنی تقریر کی ابتداء بھی عمران نیازی اور انتہا بھی عمران نیازی پر ہی کرتے تھے، لہٰذا اب وہ کیا اشارے کنائے استعمال کرتے ہوئے اپنے دلوں کا غبار و بھڑاس نکالیں گے ضرور سوچنے بلکہ فکرمند ہونے کی بات ہے لیکن کوئی بات نہیں تسلی دلاسا دلانے کیلئے عرض ہے کہ نام میں کیا رکھا ہے، دانائوں کا قول ہے کہ گلاب کو کسی بھی نام سے پکارا جائے اس کی خوشبو پرکوئی اثر نہیں پڑتا، اس لحاظ سے اب ہمارے سیاسی رہنمائوں کی تقریروں میں ادب کی شائستگی اور جاشنی بھی شامل ہوتی چلی جائے گی، سیاسی رقیبوں کیلئے اپنی تقاریر کی ابتداء یا اختتام کیلئے یہ شعر عرض ہے۔
جو تجھے بھول گیا، تجھ پر بھی لازم ہے امیر
خاک ڈال، آگ لگا، نام نہ لے، یاد نہ کر
چونکہ کپتان کا نام لئے بغیر سیاسی جلسے جلوس اور مختلف النوع چیلنز پر سرشام کی محفلیں اور سوشل میڈیا کا کاروبار فی الحال چلنا مشکل بلکہ ناممکن سا دکھائی دیتا ہے لہٰذا یاروں نے ابھی سے کپتان کے فرزند قاسم کی نسبت سے قاسم کے ابو کہنا شروع کردیا ہے اور یہ شاید کپتان کو بھلا لگا ہے اس لئے ابھی تک ان کی طرف سے اس پر کوئی مثبت یا منفی ردعمل نہیں آیا ہے، عربوں کے ہاں اپنی اولاد کی نسبت سے کنیت رکھی جاتی ہے، حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر خاتم النبیین صلی اللہ علیہ الہ وسلم تک مختلف انبیاء کیلئے مختلف نسبتوں سے کنیت کا استعمال ہوتا رہا ہے، مثلاً آدم علیہ السلام کو ابوالبشر، ابراہیم علیہ السلام کو ابوالانبیاء اور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کو ابوالقاسم کی مبارک کنیت سے یاد فرمایا جاتا ہے۔ یہاں اس بات کا ذکر بہت ضروری ہے کہ اس حوالے سے بہت احتیاط کی ضرورت ہے کہ کوئی مداح و معتقد یا مخالف و حریف کپتان کو ”ابوالقاسم” جو قاسم کے ابو معرب ہے نہ پکارے کیونکہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ”میرے نام پر نام تو رکھو میری کنیت نہ رکھو کیونکہ مجھے قاسمۖ بنا کر بھیجا گیا میں تمہارے درمیان تقسیم کرتا ہوں کنیت قاسمۖ کی ایک وجہ یہ ہے کہ آپۖ روز قیامت اہل جنت میں جنت تقسیم فرمائیں گے، دوسری وجہ اس کی یہ ہے کہ آپۖ کی اولاد اطہار میں سب سے پہلے قاسم کی ولادت ہوئی اور سب سے پہلے ان کا ہی وصال ہوا، حضرت جابر بن عبداللہ انصاری سے روایت ہے کہ ہم انصاریوں میں سے ایک انصای کے ہاں بچہ تولد ہوا اور اس نے اس بچہ کا نام قاسم رکھا جس پر انصار نے اس انصاری سے کہا کہ ہم تم کو ابوالقاسم نہیں کہیں گے کیونکہ یہ خاتم النبیینۖ کی کنیت ہے وہ انصاری آپۖ کے پاس آیا اور پورا ماجرا بیان کیا، آپۖ نے فرمایا انصار نے اچھا کیا تم میرا نام (محمدۖ) تو رکھ سکتے ہو مگر میرے نام کے ساتھ میری کنیت نہ رکھو کیونکہ قاسم تو صرف میں ہی ہوں۔ لیکن یہاں اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ چونکہ آج کل کپتان پر طعن و تشنیع کے بہانے ہی ڈھونڈے جاتے ہیں لہٰذا عرض ہے کہ متذکرہ بالا حکم نبی اکرمۖ کی حیات مبارکہ تک تھا آپۖ کی رحلت کے بعد اجازت ہے کہ کوئی آپۖ کا نام نامی رکھے یا کنیت ابو قاسم رکھے، حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اپنے بیٹے کا نام محمد اور کنیت ابوالقاسم رکھی جنہیں تاریخ نے ابن حنفیہ کے نام سے بھی یاد کیا، یہ عرض داشت اس لئے پیش کی کہ وطن عزیز میں مذہبی معاملات کے حوالے سے ایک دوسرے پر الزام وغیرہ لگانا بہت آسان کام ہے۔ لہٰذا اگر کوئی شخص خان و کپتان کو ابوقاسم کے نام سے پکارے تو اس کا جواز بھی ہے اور پیمرا سے خلاصی کا راستہ بھی۔ دیکھتے ہیں یہ سلسلہ کب تک چلتا ہے کیونکہ سیاست بہت ناقابل اعتماد چیز ہے ہوسکتا ہے کہ آج جو شخص اور جماعت شجر ممنوعہ کی حیثیت اختیار کرچکی ہے کل دوبارہ مقبول و محبوب بن جائے لیکن اس وقت تک موافقین اور مخالفین دونوں اپنی اپنی ضرورت کے مطابق کام نکالنے کیلئے نئے تلازم اور سابقے لاحقے پیدا کریں۔
مخالفین خان تو آج کل ان کو پنچ لگانے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتے لیکن پھر بھی یہ عجیب سی بات ہے کہ دو سو کے قریب مقدمات بنانے کے بعد بھی وہی معاملہ ہے جو نواب مصطفیٰ خان شیفتہ نے برسوں پہلے ارشاد فرمایا تھا۔
ہم طالب شہرت ہیں ہمیں ننگ سے کیا کام
بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا
اور ویسے بھی جب کسی ملک میں معاملات اس حد پہ پہنچ جاتے ہیں کہ لوگ اٹھائے جاتے ہیں، عدالتیں ضمانتیں دیتے دیتے تھک رہی ہیں اور عدالتوں کے باہر دوبارہ گرفتاریاں ہوتی ہیں تو اس ملک میں لوگ نہ صرف نام لینے میں احتیاط کرتے ہیں بلکہ اب تو آڈیو ریکارڈنگ کے خوف سے بھی اشاروں کنائوں اور مختلف کوڈ ورڈز وغیرہ میں بات چیت کرنے پر مجبور ہوں لیکن یہ جو کہا جاتا ہے کہ دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں اب تو سائنسی ترقی کے طفیل دیواروں کی آنکھیں بھی ہوتی ہیں لہٰذا عدم کے الفاظ میں اے عدم احتیاط لوگوں سے لوگ منکر نکیر ہوتے ہیں۔
بات نام کی ہو رہی تھی اگرچہ کہا جاتا ہے کہ نام میں کیا رکھا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ نام (اسمائ) میں بہت کچھ رکھا ہے، اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو زمین پر بھیجنے سے پہلے تمام اشیاء کے نام سکھائے تھے، انسان ناموں سے پہچانے جاتے ہیں نام سے تشخص تشکیل پاتا ہے نام کے ساتھ والدین کی محبت و پیار کی یادیں وابستہ ہوتی ہیں لہٰذا سیاست و رقابت اپنی جگہ لیکن کسی کو اس کے نام کے حوالے سے اس حد تک تنگ کرنا کسی بھی حوالے سے مناسب نہیں اور نہ ہی اس سے محبین و مخالفین پر کوئی اثر پڑتا ہے کیونکہ محبت کرنے والے تو اپنے محبوب کے چہرے کو چاند ہی پکاریں گے اور چاند تو ہرجائی ہے، ہر دل اور ہر گھر میں اترجاتا ہے پابندیوں اور سختیوں کے ایام میں عشاق اپنے محبوب سے اور بھی محبت کرنے لگتے ہیں اور خط پہ خط لکھتے رہتے ہیں، گرچہ مطلب کچھ بھی نہ ہو کیونکہ ان کو تو محض مطلب اپنے معشوق اور پیر و مرشد کے نام سے ہوتا ہے، بقول غالب
خط لکھیں گے گرچہ مطلب کچھ نہ ہو
ہم تو عاشق ہیں تمہارے نام کے
ورنہ بعید نہیں کہ اگر پریس کانفرسوں کا یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہا اور نام لینے پر پابندیاں برقرار رہیں تو دیوانے یوں بھی کہہ سکتے ہیں
نام لکھتے ہیں تیرا، لکھ کے مٹا دیتے ہیں
یوں ہی تنہائی میں ہم دل کو سزا دیتے ہیں

مزید پڑھیں:  کور کمانڈرز کانفرنس کے اہم فیصلے