سستی ایل این جی کی خریداری کا فیصلہ

پاکستان نے آذربائیجان سے سستی ایل این جی خریدنے کا فیصلہ کرتے ہوئے پاکستان ایل این جی لمٹیڈ (پی ایل ایل) اور آذربائیجان کی سرکاری کمپنی کے درمیان معاہدہ کرنے کیلئے اقدمات اٹھانے کا فیصلہ کرلیا ہے اطلاعات کے مطابق آذربائیجان کی کمپنی سوکار سے ہر مہینے ایک ایل این جی کارگو خریدا جائے گا، اس ضمن میں سمری ای سی سی میں پیش کی جائے گی، امر واقعہ یہ ہے کہ پاکستان کو توانائی کے شعبے میں مشکلات کا سامنا ہے اور پاکستان کے اندر قدرتی ذخائر میں مسلسل کمی ہونے، نئے ذخائر دریافت ہونے میں حائل مشکلات اور بڑھتی ہوئی گیس کی طلب سے مختلف شعبوں کو معمول کے مطابق گیس فراہمی جبکہ گیس سے بجلی منصوبے چلانے میں درپیش مسائل سے بجلی کی فراہمی بھی ایک مسئلہ بن رہا ہے، نہ صرف صنعتوں کیلئے ضرورت کے مطابق گیس کی فراہمی مشکلات سے دوچارہے جس سے صنعتی سرگرمیاں ختم ہورہی ہیں اور بے روزگاری کے خطرات ملکی معیشت کیلئے خطرناک سطحوں کو چھو رہے ہیں بلکہ گیس سے چلنے والے بجلی منصوبے بھی بجلی کی کمی پوری کرنے میں ناکام ہو رہے ہیں اور سی این جی سیکٹر پر پڑنے والا بوجھ الگ سے مشکلات کا باعث ہے۔ مستزاد عام گھریلو صارفین کیلئے گزشتہ کئی سال سے سردیوں کو تو ایک طرف رکھئے اب تو گرمی میں بھی گھروں میں چولہے جلانا عذاب بن چکا ہے۔ ایسی صورتحال میں متبادل کے طور پر ایل این جی کا شعبہ ہی رہ جاتا ہے جو ملک میں گیس کی کمی کو پوا کرکے حالات میں بہتری لانے کا باعث بن سکتاہے مگر بدقسمتی سے گزشتہ چار سال کے دوران قطر کے ساتھ سستے ترین ایل این جی کے معاہدے کو ”تحفظات” کا نشانہ بناکر سستی ایل این جی کی فراہمی کی راہیں مسدود کرکے ملکی مسائل میں اضافہ کیا گیا اورجب بعد میں اس حوالے سے لیگ (ن) کی سابق حکومت پر لگائے جانے والے الزامات کی حقیقت سامنے آئی تو قطر کے ساتھ ہونے والے معاہدے کو ختم کرنے میں ملوث بدنیت افراد کے خلاف اس ”قومی جرم” میں اعانت کرنے پر کوئی کارروائی نہیں کی گئی جس کے نتائج آج ہم مجموعی طور پر بھگت رہے ہیں، یہاں یہ بات خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ پیپلز پارٹی کے دور میں سابق صدر آصف علی زرداری کی مساعی سے ایران کے ساتھ گیس فراہمی کا جو منصوبہ طے پایا تھا اس میںایران نے اپنے حصے کا کام مکمل کرتے ہوئے گیس پائپ لائن پاکستان کی سرحدوں تک تعمیر کردی تھی مگر امریکہ کے دبائو میں ایران پر اقتصادی پابندیاں لگانے کی وجہ سے پاکستان اپنے حصے کا کام مکمل نہیں کرسکا تھا جس میں اب ہمیں کروڑوں ڈالر کا جرمانہ ادا کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے تاہم اب جبکہ پاکستان اور ایران کے مابین گزشتہ ہفتے بارڈر سسٹم کے تحت تجارت کا معاہدہ ہوا ہے تو ضرورت اس امر کی ہے کہ اس نامکمل منصوبے کی تکمیل پر توجہ دے کر ایران سے نہ صرف گیس بلکہ پٹرولیم مصنوعات بھی مال کے بدلے مال کے تحت درآمد کرنے کے اقدامات کئے جائیں اور آذربائیجان سے بھی ایل این جی کی درآمد کو بڑھایا جائے تاکہ ہماری مشکلات ختم ہوسکیں۔

مزید پڑھیں:  اپنے جوتوں سے رہیں سارے نمازی ہو شیار