قانون کی بجائے پرچی کی حکمرانی؟

امریکہ میں سینیٹ کی خارجہ امور کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر باب مینینڈز نے ایک بیان میں کہا ہے کہ پاکستان میں شہریوں بالخصوص دہری شہریت رکھنے والے افراد کی پکڑ دھکڑ افسوسناک ہے، وائس آف امریکہ کو جاری کئے گئے بیان میں انہوں نے کہا کہ پاکستان میں انسانی حقوق کی صورت حال تشویشناک ہے اور حالیہ عرصے میں ہونے والی من مانی گرفتاریاں قابل مذمت ہیں، اپنے نظریات کا اظہار کرنے والے افراد کی من مانی گرفتاریاں ناقابل برداشت اور جمہوری اقدار سے مطابقت نہیں رکھتیں، تمام پاکستانیوں کے آئین میں درج حقوق کا احترام کیا جانا چاہئے، ان کا کہنا تھا کہ اطلاعات کے مطابق کئی افراد کو باضابطہ الزامات کے بغیر حراست میں رکھا گیا ہے، ان میں سے کئی افراد دہری شہریت رکھنے والے امریکی ہیں انہیں کم ازکم قانونی نمائندگی تک رسائی حاصل نہیں، امریکی سینیٹ کی خارجہ امور کمیٹی کے سربراہ کا یہ بیان اپنی نوعیت کا پہلا احتجاجی تبصرہ نہیں بلکہ اس سے پہلے تواتر کے ساتھ امریکیوں کی طرف سے پاکستان کے رواں سیاسی بحران پر کھلے انداز میں اظہار خیال کیا جا رہا ہے، اس سے پہلے امریکی کانگریس کے درجنو ں ارکان نے سیکرٹری آف سٹیٹ انٹونی بلنکن سے بھی پاکستان کی صورت حال میں اپنا کردار ادا کرنے کا مطالبہ کیا تھا، سابق امریکی سفیر زلمے خلیل زاد تو بہت آگے نکل کر پاکستان کی سیاسی صورت حال پر تبصرہ آرائی میں مصروف ہیں، ایک اور رکن کانگریس شیلا جیکسن بھی اس حوالے سے اپنا موقف دے چکی ہیں، یوں امریکہ اور پاکستان کا بحران ایک ساتھ چل رہا ہے، اس بحران کے آغاز میں عمران خان نے امریکی اہلکار ڈونلڈ لو کا سائفر لہرا کر اپنی حکومت کے خلاف سازش کا بیانیہ اپنایا تھا جس کے بعد سے پاکستان کے بحران میں امریکہ کا ذکر آتا ہی رہا ہے، ایک سال کے بعد یہ مداخلت ایک نئے انداز سے سامنے آئی ہے، اب امریکہ سے عمران خان کی حمایت میں بہت طاقتور آوازیں بلند ہو نے لگی ہیں، سینیٹ کی خارجہ امور کمیٹی کے سربراہ کی آواز ان میں سب سے زیادہ بلند ہے، امریکہ میں اس وقت ڈیموکریٹس کی حکومت ہے، ڈیموکریٹس کے دور میں امریکہ اور دوسرے ملکوں میں انسانی حقوق اور شہری آزادیوں پر زور دیا جاتا ہے، ڈیموکریٹس کسی ملک میں غیر جمہوری حکومتوں کے قیام پر بھی خاموش نہیں رہتے، ان کے اندر ایک دبائو اس حوالے سے اپنا کام کرتا رہتا ہے، اس کے برعکس ری پبلکن ان باتوں پر زیادہ توجہ نہیں دیتے، انہیں جمہوری یا آمرانہ حکمرانوں کی حیثیت سے اتنی ہی غرض ہوتی ہے جتنی کہ امریکی قانون میں اجازت ہوتی ہے، ڈیموکریٹس کے لئے پاکستان کی موجودہ صورت حال میں کلی طور پر بے حس ہوجانا ممکن نہیں ایسے میں جب کہ بیرون ملک بسنے والے پاکستانی بھی اس بحران میں کسی نہ کسی انداز سے شامل ہیں۔ پی ڈی ایم کی حکومت جس انداز میں کام کر رہی ہے یہ پاکستان کیلئے زیادہ نیک نامی کا باعث نہیں، اس طرز حکمرانی سے پاکستان کا امیج جو پہلے ہی اچھا نہیں مزید خراب ہو رہا ہے، بالخصوص خواتین قیدیوں کے ساتھ ہونے والے واقعات نے اس تاثر کو گہرا کیا ہے کہ حکمران طبقات سیاست میں خواتین کی اس قدر بڑے پیمانے پر دلچسپی اور سرگرمی سے خوش نہیں، اس لئے خواتین کو سیاست سے دور رکھنے کے لئے حکومت زیادہ سخت گیری اپنائے ہوئے ہے، خواتین کی سیاست سے آمد سے وہ ”سٹیٹس کو ” ٹوٹنے کے خدشات ہیں جو 75 سال سے الیکٹلبز نامی مخلوق کے سہارے قائم ہے، حالات یہی رہے تو الیکٹبلز کا فسوں بھی ٹوٹ سکتا ہے اور ان کی 75 سالہ بالواسطہ حکمرانی بھی ختم ہو سکتی ہے، جب نوجوان ان بھاری بھرکم شخصیات سے باغی ہوجائیںگے تو الیکٹبلز کس کام کے رہیں گے ؟ یہ وہی الیکٹبلز ہیں جن کی واپسی کا مطالبہ پی ڈی ایم ہیئت مقتدرہ سے کرتی چلی آرہی تھی، خواجہ آصف نے اپوزیشن کے دنوں میں کہا تھا کہ ہمار ا اسٹیبلشمنٹ سے صرف یہ مطالبہ ہے کہ اپنے ان پچاس ساٹھ لوگوں کوعمران خان کی حمایت سے دست کش کر کے واپس بلائے جو اس حکومت کا سہار ا دیئے ہوئے ہیں، حق بہ حق دار رسید کے مصداق اب یہ پچاس ساٹھ تو کیا ایک سو سے زیادہ الیکٹبلز واپس جا چکے ہیں اور الیکشن کے لئے اپنے چاقو چھریاں تیز کر رہے ہیں، اس کے باوجود اگر کام نہ بنا تو یہ یکسر ایک نئی صورت حال ہوگی، یہ پاکستانی سیاست کی نئی حرکیات کا آغاز ہوگا، جیلوں میں پڑے یہ کیسے مجرم ہیں جو ایک پرچی پڑھ کر قانون کی گرفت سے آزاد ہو جاتے ہیں، ایک پرچی نے قانون پر سبقت اور فوقیت حاصل کر لی ہے، پرچی پڑھتے ہوئے قانون شکنوں کے تمام جرائم معاف ہوجاتے ہیں اور وہ دوسرے ہی دن سیاست میں حصہ لینے لگتے ہیں، حقیقت میں یہ حکومت کا بیانیہ کمزور کرنے کا باعث بن رہا ہے، اس سے یہ تاثر گہرا ہو رہا ہے کہ ملک میں قانون کی بجائے اس وقت پرچی کی حکمرانی ہے، گویاکہ نظریہ ضرورت کی حاکمیت ہے، ایک پرچی قانون پر بھاری پڑ گئی ہے، اگر کوئی مجرم ہے تو وہ ایک فوٹو سٹیٹ کاغذ کو پڑھتے ہی پاک ہو جاتا ہے، ان مضحکہ خیز رویوں سے پاکستان اور پاکستان کے قانون کا مذاق بن رہا ہے، حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مکمل ڈیڈ لاک پیدا ہوچکا ہے، دونوں متحارب فریقوں کے درمیان کوئی نقطہ ٔ اتصال بنتا اور قائم ہوتا نظر نہیں آتا، عمران خان کی طرف سے مذاکرات کے لئے ایک کمیٹی کے قیام کا اعلان کیا گیا جس پر حکومت نے فوراً جواب دیا کہ وہ مذاکرات نہیں کریں گے، یہ وہی رویہ ہے جو موجودہ اپوزیشن نے حکومت ہوتے ہوئے اپنایا تھا، عمران خان صاحب” چوروں کے ساتھ نہیں بیٹھوں گا ” کے مسلسل اعلانات کرکے اپوزیشن جماعتوں کو دھتکار رہے تھے، شاید یہ ان کے اعتماد کی بلندی کا اظہار تھا اور پاکستان جیسے ملک میں کسی سویلین تو کیا کسی فوجی حکمران کو بھی اس قدر بڑھی ہوئی خود اعتمادی راس نہیں آئی، عمران خان جب اپوزیشن کے ساتھ مذاکرات نہ کرنے اور ان کے ساتھ نہ بیٹھنے کے اعلانات کر رہے تھے تو اپوزیشن ملکی اسٹیبشلمنٹ کے ساتھ پردوں کے پیچھے لندن سے راولپنڈی تک مذاکرات میں مصروف تھی، خواجہ آصف نے ایک بار اسمبلی میں اسی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ تم سے مذاکرات کون کر رہا ہے ہم تو ان سے مذاکرات کر رہے ہیں جب یہ کامیاب ہو ں گے تو تمھارے سر پرآسمان گرے گا، بعد میں یہی بات صحیح ثابت ہوئی، عمران خان کو علم نہیں ہوا اور اپوزیشن اور اسٹیبلشمنٹ میں مذاکرات کامیاب ہو چکے تھے جس کے نتیجے میں حکومت کی تبدیلی عمل میں آگئی، اب مذاکرات کے معاملے میں یہی روش بیتے کل کی اپوزیشن اور آج کی حکومت نے اپنار کھی ہے، حکومت عمران خان کی مذاکرات کی پیشکش کو اسی طرح رعونت سے مسترد کررہی ہے جس طرح ڈیڑھ سال پہلے عمران خان کیا کرتے تھے، حکومت اس وقت ہوا کے گھوڑے پر سوارہے اور انہیں یہ زعم ہے کہ وہ ایک صفحے پر ہے، یہ زعم بے جا بھی نہیں کیونکہ حکومت اور ہئیت مقتدرہ اس وقت ایک صفحے پر ہے مگر کچھ ہی عرصہ پہلے اس صفحے پر ایک اور طاقت کا نام تھا اور اسے بھی زعم تھا کہ وہ ایک صفحے پر ہے، اس ایک صفحے کی خود اعتمادی نے عمران خان کو تنہا کر دیا تھا، اب پی ڈی ایم کی حکومت وہی غلطی دہرا رہی ہے، وہ ایک صفحے کی سہولت کے باعث حددرجہ خود اعتمادی کا شکار ہے، حکومت کو یہ غلط فہمی ہے کہ یہ ایک صفحہ تاحیات چلے گا، پاکستان میں ایسا نہیں ہوتا یہاں صفحہ پھٹتے زیادہ دیر نہیں لگتی۔

مزید پڑھیں:  بیرونی سرمایہ کاری ۔ مثبت پیشرفت