بارے آموں کے کچھ بیاں ہو جائے

وزیر اعظم شہباز شریف نے ترک صدر طیب اردوان کی تقریب حلف برداری کے موقع پر آموں کا تحفہ پیش کرتے ہوئے جو کچھ کہا ہے اس نے ہماری دانست میں طیب اردوان کو عجب مخمصے میں ضرور مبتلا کر دیا ہو گا ‘ وزیر اعظم شہبازشریف نے ترک صدر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں آپ اور خاتون اول کے لئے پاکستان سے آموں کا تحفہ لایا ہوں۔ وزیر اعظم نے اگرچہ ازراہ تفنن کہا کہ آدھے آم آپ کے لئے اور آدھے خاتون اول کے لئے ہیں ۔ جس پر دونوں (ترک صدراور خاتون اول) نے وزیر اعظم کا شکریہ ادا کیا ‘ اور آموں سے متعلق اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا ترک صدر نے کہا کہ پاکستان کے آم لذیذ اور میٹھے ہوتے ہیں۔ اس پر ہمیں مرزا غالب یاد آگئے جونسلی طور پر ترک تھے اور بچپن ہی میں اپنے بزرگوں کے ساتھ ہندوستان ہجرت کرکے آئے تھے ۔ انہیں بھی آموں سے بڑی رغبت تھی اورآموں کے خواص کے حوالے سے کسی کے سوال کرنے پر انہوں نے کہا تھا کہ ”آم بہت ہوں اورمیٹھے ہوں” مرزا غالب نے آموں کے بارے میں ایک مثنوی بھی رقم کی ہے جو ان کے دیوان میںموجود ہے جس کا تذکرہ آگے ہوگا ‘ تاہم یہ جو ہم نے گزارش کی ہے کہ وزیر اعظم شہبازشریف نے ترک صدر طیب اردوان کوعجب مخمصے میں مبتلا کردیا ہے تواس کی وجہ یہ ہے کہ جب وزیر اعظم نے طیب اردوان کے لئے آموں کے تحفے کی بات کی اورآدھے آدھے ”آپس میں بانٹنے” کا ذکر کیا تو خاتون اول وہاں موجود تھیں ‘ اور یہی وہ نکتہ ہے جس پر ہم نے ”عجب مخمصے”الفاظ چسپاں کرنے کی کوشش کی ہے ‘ گویا بقول احمد فراز
فراز تونے اسے مشکلوں میں ڈال دیا
زمانہ صاحب زر اور صرف شاعر تُو
دراصل مسئلہ یہ ہے کہ وزیر اعظم جوآم اپنے ساتھ بطور تحفہ لے گئے اور جن کو وہاں سجا کر میزوں پر لمبی قطار میں سجا دیا گیا تھا اور اس کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکی ہیں ‘ وہ کئی اقسام کے آم تھے ‘ جن میں یقینا سندھڑی ‘ انورٹول ‘ مالوہ ‘ چونسہ اور نہ جانے اور کتنے اقسام کے آم ہوں گے ‘ اب مسئلہ یہ ہے کہ وزیر اعظم نے دونوں میاں بیوی میں آدھے آدھے تقسیم کرنے کی بات کی ہے تو طیب اردوان اس حوالے سے انصاف کیسے کرسکیں گے ‘ یعنی وہ قدیم دور کے ترک ملا نصیر الدین بھی تو نہیں ہیں جن کے پاس ایک بار دو تربوز بطور تحفہ آئے جن میں سے ایک تربوز ذرا بڑا اور دوسرا قدرے چھوٹا تھا اور ان کی دو بیویاں تھیں ‘ انہوں نے انصاف اور عدل قائم کرنے کے لئے ایک چھری منگوائی اور دونوں تربوزوں کے دو دو برابر برابر ٹکڑے کرکے دونوں کے ایک ایک ٹکڑے اکٹھے کئے یعنی بڑے اور چھوٹے تربوز کو برابر کاٹ کر ایک حصہ ایک اہلیہ کے گھر اور دوسرا حصہ دوسری اہلیہ کے گھر بھیج دیا ‘ یہ تو شکر ہے کہ ملا نصیر الدین ہندوستان نہیں آسکے تھے ورنہ اگر وہ دوبلیوں کے درمیان پنیر کے ایک ٹکڑے پر لڑائی اور بندر کے ہاتھ ترازو کے ذریعے”انصاف” فراہم کرنے کی کہانی سن لیتے تو دونوں تربوزوں کو برابر دو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے شاید تربوزوں کے چھلکے ہی دونوں بیویوں کو بھیج کر عدل کا نیا معیار متعارف کرادیتے ‘ بہرحال یہ تو اچھا ہے کہ طیب اردوان کی صرف ایک ہی بیوی ہے ‘ شہباز شریف کی طرح ایک سے زائد نہیں ‘ پھر بھی چونکہ کسی بھی قسم کے آم ہوں ان کے سائز یکساں نہیں ہوتے ‘ خاص طور پر سندھڑی کے حوالے سے تو یہ معلوم حقیقت ہے کہ ان میں ایک پائو سے لے کر ایک ڈیڑھ کلو وزن کے برابر آم بھی پائے جاتے ہیں ‘ اب ہم یہ تو نہیں جانتے کہ طیب اردوان ان انواع و اقسام کے مختلف الاوزان آموں کی تقسیم کرتے ہوئے برابر برابر کے کلیے پر کیسے عمل کریں گے ‘ آم کوئی تربوز تو نہیں جنہیں آسانی کے ساتھ دو برابرٹکڑوں میں تقسیم کیا جا سکے ‘ پہلے تو ان کی تقسیم ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے اور اگر بہ فرض محال چاقو یا چھری کے ذریعے ایسا ممکن ہوبھی سکے تو گٹھلیوںکا کیا بنے گا ‘ انہیں دو برابر حصوں میں کیسے بانٹا جا سکے گا ‘ اگرچہ وزیر اعظم شہباز شریف نے ترک صدر کو آموں کا تحفہ پیش کرتے ہوئے ان ہی کے ایک ہم نسل مرزا غالب کی شرط پر پوری طرح عمل کر دکھایا ہے ‘ یعنی آم بہت ہوں اور میٹھے ہوں ‘ جنہوں نے ”آموں کی تعریف میں ” کے عنوان سے مثنوی میں کہا ہے ۔
مجھ سے کیا پوچھئے کہ کیا لکھئے؟
نکتہ ہائے خرد فزا لکھئے
بارے آموں کا کچھ بیاں ہو جائے
خامہ نکل رطب فشاں ہو جائے
آم کا کون مرد میدان ہے؟
ثمر شاخ گوے و چوگاں ہے
آم کے آگے پیش جائے خاک
پھوڑتے ہے جلے پھپھولے تاک
یہ بھی ناچار جی کا کھونا ہے
شرم سے پانی پانی ہونا ہے
مجھ سے پوچھو تمہیں خبر کیا ہے
آم کے آگے نیشکر کیا ہے
”آموں کی تعریف میں” کے عنوان سے کہی ہوئی یہ مثنوی پڑھنے کی چیز ہے جس میں آموں کے مقابلے میں نیشکر(گنا) اور انگور کو ہیچ ثابت کرتے ہوئے اسے اللہ کا عظیم تحفہ قراردیا ہے اور ایسے الفاظ کا استعمال کیا ہے جویقینا مرزا غالب ہی کا خاصا ہے ‘ کیا قوافی ‘ کیا ردائف ‘ الفاظ کی بندش سبحان اللہ
آتش گل پہ قند کا ہے قوام
شیرے کے تار کا ہے ریشہ نام
غالب کے ایک ہم عصر مرزا صاحب کے برعکس آم پسند نہیں کرتے تھے ‘ ایک بار دونوں ایک جگہ بیٹھے گپ شپ کر رہے تھے کہ دوسری جانب سے چند گدھوں کا اپنے مالک کے ساتھ سامان ڈھوتے ہوئے گزرا ہوا ‘ گدھے وہاں سڑک کے کنارے آموں کے چھلکوں کو سونگھ کر آگے چلاگیا ‘ تو دوست نے مرزا غالب سے کہا ‘ دیکھا مرزا ‘ آم گدھے بھی نہیں کھاتے ‘ غالب کہاں چوکنے والے تھے ‘ ترنت جواب دیا ‘ ہاں گدھے آم نہیں کھاتے ‘
صاحب شاخ برک و بار ہے آم
ناز پروردہ بہار ہے آم

مزید پڑھیں:  کہ دیکھنا ہی نہیں ہم کو سوچنا بھی ہے