عوامی منصوبے کو تنازعات کی نذرنہ کیا جائے

عالمی قرض دہندہ اداروں ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی)اور فرانسیسی ایجنسی برائے ترقی اے ایف ڈی کی جانب سے خیبر پختونخوا حکومت سے باضابطہ طور پر پشاور بس ریپڈ ٹرانزٹ کے ٹھیکیداروں کو واجبات کی فوری ادائیگی کا مطالبہ کرنے کی نوبت نہیں آنی چاہئے تھی ۔واضح رہے کہ اے ڈی بی اور اے ایف ڈی نے ماس ٹرانزٹ کے لئے مجموعی طور پر47کروڑ57لاکھ ڈالر کے فنڈز فراہم کیے تھے۔بی آر ٹی کنٹریکٹرز کا اصرار ہے کہ صوبائی حکومت نے پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم کے لئے کام کرنے والے 5 ٹھیکیداروں کو کئی ماہ سے ایک ارب روپے سے زائد کے واجبات ادا نہیں کیے۔ جو ماس ٹرانزٹ کے 244 بسوں کے بیڑے کو چلانے والی کمیٹی نے خیبرپختونخوا حکومت کو اس کے 75کروڑ روپے کے واجبات کی عدم ادائیگی کی وجہ سے سنگین مالی مشکلات کے باعث سروس کی متوقع بندش کے بارے بھی آگاہ کرچکی ہے۔ ایک مشترکہ خط میں کہاگیا ہے کہ اس خلاف ورزی کو اگر فوری طور پر درست نہیں کیا گیا تو جاری منصوبوں، مستقبل کے قرضوں، اور پشاور بی آر ٹی منصوبے کے لئے اے ایف ڈی کی جانب سے فراہم کی جانے والی شریک مالی اعانت کے تسلسل پر سنگین نتائج ہوں گے۔اگرچہ قرض دہندگان کی مداخلت اورمتوقع سخت عوامی ردعمل کے باعث سروس کی بندش کافیصلہ موخر کردیا گیا ہے لیکن کوئی بھی خدمات فراہم کرنے والا ادارہ زیادہ عرصے تک بغیر ادائیگی کے خدمات فراہم نہیں کر سکتا سرکاری موقف معاہدے کے اختتام کا ہے ایسے میں سروس کو جاری رکھنے کے لئے حکومت کے پاس کیا منصوبہ اور تیاری ہے اس کی وضاحت ہوتی تو بھی کوئی بات تھی بغیر کسی منصوبہ بندی اور بندوبست کے سروس کی بندش سے روزانہ کی بنیاد پر تقریباً چار لاکھ کے قریب جو لوگ متاثر ہوں گے حکومت کو اس کا بالکل بھی خیال نہیں اور نہ ہی قرض و امداد دینے والے اداروں کی ناراضگی کا کوئی خیال ہے اس قسم کے عاجلانہ پن کی کسی سرکاری محکمے اور حکومت سے توقع نہیں کی جا سکتی اس مسئلے کو التواء کا شکار بنائے رکھنے کی بجائے فوری اور واضح طور پرصورتحال سے نمٹنے اور انتظامات بارے عوام اور عطیہ و قرض دہندہ اداروں کو اعتماد میں لایا جائے حکومت اور کمپنی عوام کو متاثر کئے بغیر اپنے معاملات کا حل خود ہی نکا لا جائے اورعوام کو متاثر نہ ہونے دیا جائے ۔ توقع کی جانی چاہئے کہ باہمی معاملات کو خوش اسلوبی سے حل کرنے میں کامیابی حاصل کی جائے گی۔

مزید پڑھیں:  تجربہ کرکے دیکھیں تو!