حکومتی عملداری کہاں گئی

صر ف کم وزن روٹی ہی فروخت نہیں ہو رہی ہے بلکہ پشاور میں دودھ اور دہی کے من مانے ریٹ کی وصولی پر بھی پوچھنے والا کوئی نہیں۔ انتظامیہ نے آنکھیں بند کردی ہیں جس کے باعث پشاور میں دودھ کی قیمت 20سے 30روپے بڑھا دی ہے جبکہ شہری مجبوراً مہنگے داموں خریدنے پر مجبور ہیں۔ سرکاری نرخ کے مطابق دودھ فی لیٹر 180روپے جبکہ دہی 200روپے میں فروخت ہونی چاہئے تاہم شیر فروشوں نے دودھ فی لیٹر 200سے لیکر 220روپے تک فروخت کر رہے ہیں اسی طرح دہی کی قیمت میں بھی اضا فہ کرتے ہوئے 240سے 250روپے وصول کی جارہی ہے کئی مقامات پر شہریوں کی جانب سے نرخ نامہ پر عمل درآمد کا مطالبہ بھی بھاری ثابت ہوا اور شیر فروشوں نے انہیں دودھ اور دہی فروخت کرنے سے ہی انکار کر دیا۔اور معاملہ تلخ کلامی تک پہنچ گیا اس تمام معاملے میں ضلعی انتظامیہ مکمل طور پر لاتعلق ہے اورعوام کا کوئی پرسان حال نہیں۔معلوم نہیں کتنے محکمے اور حکام محض اس بات کی تنخواہ وصول کر رہے ہیں کہ وہ قوانین پر عملدرآمد یقینی بنا کر شہریوں سے ناانصافی نہیں ہونے دیں گے مزید مراعات اور پرتعیش گاڑیاں ہی نہیں بلکہ مختلف طریقوں سے سرکاری خزانے سے رقم بھی بٹوری جارہی ہے اس کے باوجود عملی طور پر صورتحال یہ ہے کہ پورے صوبے میں بالعموم اور پشاور شہر میں بالخصوص کسی ایک جگہ بھی سرکاری نرخنامے کی پابندی نہیں ہوتی عوام چیخ چیخ کر اضافی نرخوں کی وصولی کی طرف توجہ دلا رہے ہوتے ہیں مگر مجال ہے کہ ایک دن کے لئے ہی سہی حکام اس امر کو یقینی بنائیں کہ سرکاری نرخنامہ کی پابندی ہو اگر عوام کو اس طرح کے عناصر کے رحم و کرم پر ہی چھوڑنا ہو تو پھر کم از کم سرکاری خزانے کو ان حکام کی تقرری کرکے مزید نقصان تو نہ دیا جائے اورعوام کے ٹیکسوں کی رقم سے ایسے بادشاہ پالنے کی کیا ضرورت ہے جو ایک جانب سرکاری خزانے سے تنخواہ و مراعات حاصل کرتے ہیں اور دوسری جانب ان کو عوام کا استحصال کرنے سے صرف نظر کرنے کے ضمن میں بھاری رقم آتی ہے جسے یہ لوگ اس لقمہ حرام کو ”سٹم جنرٹیڈ منی”کہہ کر ہڑپ کر رہے ہوتے ہیں صوبے میں حکومت نام کی کوئی چیزہوتی تو وزیر اعلیٰ اور چیف سیکرٹری ‘ کمشنر ‘ ڈپٹی کمشنر ‘ اے ڈی سی ‘ اسے سیسز محکمہ خوراک اور حلال فوڈ اتھارٹی کے حکام سے ان کی کارکردگی میں بری طرح ناکامی پر کبھی تو جواب طلبی کرتے اور کبھی تو عوام کی فریاد بھی سنی جاتی ۔

مزید پڑھیں:  آبیل مجھے مار