مئیر کراچی اور جماعت اسلامی

کراچی کو منی پاکستان بھی کہا جاتاہے کیونکہ پورے پاکستان کے لوگ ہجرت کرکے یہاں پرآباد ہیں ان میں پنجابی، پٹھان، بلوچی ، گلگت بلتستانی، چترالی، اندرون سندھ کے ساتھ ساتھ بھارت سے آئے مہاجر تو ہیں ہی۔ یہ لوگ بے سروسامانی کے عالم میں کراچی کا رخ کرتے انہیں نہ تو رہنے کی کوئی فکر ہوتی اور نہ ہی کھانے پینے کی ۔ کراچی میں کوئی بھی غریب بھوکا اٹھتا ضرور تھا مگر سونے سے پہلے اسے پیٹ بھر کر کھانا مل جایا کرتاتھا کیونکہ کراچی میں غریبوں کے لئے جگہ جگہ دسترخوان لگے ہوتے تھے آج بھی ہیں مگر کم کم ۔ کراچی کی آبادی کی وجہ سے جا بجا مسائل بڑھ گئے ہیں اور ان کا حل صرف بلدیاتی نظام کی بحالی ہے۔ بلدیاتی نظام کی بحالی کی اس تحریک میں سب سے زیادہ شور اور پرزور بات متحدہ قومی موومنٹ کے ساتھ ساتھ جماعت اسلامی والے کراچی یا سندھ میں کررہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ جتنی جلدی ہوسکے انتخابات کروائے جائیں اور اگر دیکھا جائے توکراچی کو حقیقی ترقی جماعت اسلامی کے منتخب کردہ مئیر کے دور میں ہی ہوئی ۔ جماعت اسلامی حقیقی جمہوریت کی علمبردار ہے ان کے اکثریت عہدے داران عوام میں سے ہیں اور بلدیاتی نظام کی بھٹی سے کندن ہوکر قومی سیاسی دھارے میں آئے ہیں، ایک طرف جہاں یہ جماعت کی تعلیمات کا پرچار کرتے ہیں تو دوسری طرف ملک و قوم کے لئے کسی بھی قسم کی قربانی دینے پر دریغ نہیں کرتے، یہ طرہ امتیاز صرف جماعت اسلامی ہی کا نہیں اس طرح دیگر بھی بلدیاتی سیاست سے آگے آئے ہیں یہی نہیں سندھ اور پنجاب میں بھی کئی لیڈر ایسے ہیں جو کہ بلدیاتی نظام کے ذریعے سیاست میں آئے اور پھر صوبائی اور قومی سیاست کا حصہ بنے۔اقتدار چاہے کسی کا بھی ہو جماعت اسلامی نے ہر بار ہر حکومت چاہے وہ قومی ہو یا صوبائی حکومت پر زور دئیے رکھا ہے کہ کراچی کے مسائل کے حل کے لئے جلد از جلد بلدیاتی انتخابات کروائے جائیں ۔سیاسی جماعتیں جیسے ہی اقتدار میں آتی ہیں وہ بلدیاتی نظام کی بحالی میں دیر کرنے میں ہی عافیت سمجھتی ہیں۔ اب ملک عزیز کے دو صوبوںمیں تو کوئی حکومت ہی نہیں جبکہ مرکز میں میاں نواز شریف کی مسلم لیگ کی حکومت ہے سند ھ میں پیپلز پارٹی حکمران ہے۔خیبر پختونخوا میں بلدیاتی نظام بحال ہے جبکہ پنجاب جیسے بڑے صوبہ میں کہیں سے بھی بلدیاتی نظام کی بحالی کی حقیقی کوشش نظر نہیں آرہی۔بلدیاتی نظام نہ صرف عوام کے بہت قریب نمائندے ہوتے ہیں بلکہ ان ہی نمائندوں کی سیاسی تربیت گاہ بھی ہے اور یہیں سے کئی بڑے سیاست دان کندن ہوکر نکلے ہیں۔
کراچی میں کئی سیاسی پارٹیاں سرگرم عمل ہیں ہر ایک کو عوامی سطح کی جماعت ہونے کا زعم ہے تاہم متحدہ قومی موومنٹ اور جماعت اسلامی نے بلدیات کی سطح پر اپنی تنظیمیں بنارکھی ہیں لہٰذا انہیں حقیقی معنوں میں کراچی کی عوامی سطح کی جماعت کہا جانا جائز ہے۔ ان دونوں جماعتوں نے بلدیاتی سطح پر بہت کام کیا اور کراچی کے سب سے بڑے عہدے مئیر کراچی ان کے حصے میں ایک سے زائد بار آئے ۔ جماعت اسلامی
کے عبدالستار افغانی دو مرتبہ کراچی کے مئیر رہے ان کا دور 1979ء سے 1983ء تک اور دوسری دفعہ 1983ء سے 1989ء تک اس کے بعد کے سرگرم کارکن نعمت اللہ صاحب کراچی کے 26 ویں مئیر (ناظم اعلیٰ) بنے ان کا پانچ سالہ دور 2001ء سے2005ء تک تھا ان سے پہلے کراچی کی مئیر شپ متحدہ قومی موومنٹ کے فاروق ستار کے پاس تھی اور ان کے جانے کے بعد بھی متحدہ ہی کے سید مصطفی کمال کراچی کے مئیر رہے۔ جماعت اسلامی کے مئیر کو ”دنیا کا بہترین مئیر” ہونے کا اعزاز بھی حاصل رہا۔ کراچی جیسے دنیا کے سب سے بڑے اور بڑی آبادی کے شہر کی مئیرشپ کوئی بچوں کا کھیل نہیں کیونکہ مئیر کو نہ صرف ترقیاتی کام کرنے ہوتے ہیں بلکہ چومکھی سیاست بھی کرنی ہوتی ہے اکثر دیکھنے میں آیا کہ مئیر ایک جماعت کا ہے تو صوبائی حکومت دوسری جماعت کی اور وفاق میں اگر اس سے مختلف حکومت ہوتوپھر محنت بہت زیادہ کرنی پڑتی ہے۔
پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں سے جماعت اسلامی کا منشورسب سے منفرد ہے۔ ملک کی ساری سیاسی پارٹیاں تو کیا اسلامی جماعتیں بھی ان کے افکار سے مختلف90ء کی دہائی میں قاضی حسین احمد نے کبھی سیاسی اتحاد اور کبھی انفرادی حیثیت سولو فلائٹ کے تجربے کئے اور ہر تجربہ پچھلے تجربہ سے تلخ ہی رہا۔ اسلامی جمہوری اتحاد کا حصہ بن کر جو نقصان ان کی جماعت کو ہوا پھر انفرادی حیثیت کے ذریعے ( چھ ارب روپے کے مالی نقصان کے علاوہ) سیاسی نقصان کا تخمینہ لگانا محال ہے۔اور اس سے بھی بڑھ کر ایک ڈکٹیٹر کے دور میں یعنی ٢٠٠٢ء میں متحد ہ مجلس عمل ( ایم ایم اے) کے ایک اور غیر فطری اتحاد میں صوبہ خیبر پختونخوا میں حکومت تو بنالی اور حکومت میں کلیدی عہدے بھی حاصل کرلئے جن میں سینئر وزیر کا اہم عہدہ بھی شامل تھا یعنی نائب وزیر اعلیٰ کا جلیل القدر عہدہ بھی جماعت اسلامی کی ساکھ اور اس کے نظریاتی ورکر کو قائل نہ کرسکا بلکہ اس سے جو دھچکا لگا اس کا اثر یہ ہوا کہ جماعت اگلے انتخابات میں بائیکاٹ کرکے ہی کارکنوں کا اعتماد بچاسکی۔کیونکہ متحدہ مجلس عمل کے دور حکومت میں جماعت اسلامی مولانا فضل الرحمن کی شاطر چالوں کے آگے تقریباً سرنگوں رہی جیسے تیسے کرکے وہ پانچ سال گزر گئے مگر جماعت اسلامی کا عام وورکر اور سینئر وزیر بھی ان پالیسوں سے کبھی خوش نظر نہیں آرہا تھا۔
پانچ سال کے وقفہ کے بعد ٢٠١٣ء میں مولانا منور حسن کی قیادت میں جماعت اسلامی نے کسی سے اتحاد کئے بغیر نہ صرف قومی اسمبلی میں اپنا وجود تسلیم کروالیا بلکہ خیبر پختونخوا میںاہم اتحادی کے روپ میں ایک بارپھر بہت سی اہم وزارتوں (جی ہاں ایک بار پھر سینئر صوبائی وزیر یعنی نائب وزیر اعلیٰ سمیت) کے ساتھ صوبائی دارحکومت میں براجمان ہوئے۔لیکن گزشتہ اسلامی سیاسی اتحاد کی طرح پاکستان تحریک انصاف سے ہونے والا یہ جمہوری اتحاد بھی جماعت اسلامی کے نظریہ سے ہرگز ہرگز مماثلت نہیں رکھتا ، جماعت اسلامی تو بطور عام دیگر اسلامی جماعتوں سے بھی مختلف نظریات رکھتی ہے اور بطور خاص وہ ہرسیاسی پارٹی کے منشور سے ہر گز ہرگز مدغم یا مماثلت رکھنے کا سوچ بھی نہیں سکتی ، یہ اس کے سیاسی کیریئر کی بہت بڑی بھول ہی قراردی گی۔اور اگر اس اتحادیوں کی بات کریں تو یہ کوئی سیاسی پارٹی سے اتحاد نہیں بلکہ کسی دینی فکر رکھنے والی سیاسی پارٹی (مسلم لیگ وغیرہ) سے بھی اتحاد نہیں بلکہ یکسر مختلف الذہن ، مختلف المزاج لوگوں سے اتحاد تھا۔اب جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے منشور اور وورکرز کے ذہنوں میں واضح اختلاف ہے ایک پارٹی خالصتاً دینی پارٹی ہے تودوسری ہر کام میں ڈھول کی تھاپ کو لے آتی ہے۔ ان دومختلف سمت کے نظریات والے چند قدم دائیں اور چند قدم بائیں ہی لے پائے اور ایم ایم اے کی طرح جوں توں کرکے پانچ سال پورے کئے اور پھر اگلے الیکشن میں اتحاد اپنے منطقی انجام کو پہنچ کر ختم ہوگیا۔آج کل میں کراچی کی میئر شپ کے لئے میدان سجنے والا ہے جماعت اسلامی کو ایک بار پھر تحریک انصاف سے اتحاد کرنا پڑرہاہے تاہم یہ بیل منڈھے چڑھتی نہیں لگتی ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیاجماعت اسلامی ماضی کی طرح کسی غیر فطری اتحاد کا کتنے عرصہ تک حصہ بنی رہے گی۔

مزید پڑھیں:  اپنے جوتوں سے رہیں سارے نمازی ہو شیار
مزید پڑھیں:  بے بس حکومتیں بیچارے عوام

اور کراچی کی بلدیاتی سیاست میں اپنا کھویا ہوا وقار واپس پاسکے گی یا نہیں۔ کیا جماعت اسلامی کا مئیر کراچی کا حقیقی معنوں میں مئیر ہوگا یا پھرکراچی میں اپنی رہی سہی ساکھ کو بھی دائو پر لگاکر پیپلز پارٹی کی جھولی میں یہ عہدہ بھی ڈال دیں گی۔