حضوروالا شہر میں نکل کرتو دیکھیں

خیبرپختونخوا کے نگران وزیر برائے ایکسائز اینڈ نارکوٹکس کنٹرول حاجی منظور خان آفریدی نے کہا ہے کہ منشیات انتہائی قبیح معاشرتی برائی ہے جو ہمارے نوجوان نسل میں تیزی سے سرایت کر چکی ہے اور انکی صلاحیتوں کو گھن کی طرح کھا رہی ہے اسلئے وقت آچکا ہے کہ منشیات کے پھیلائو کی روک تھام پر بھرپور توجہ دی جائے اور نئی نسل کو اس عفریت سے محفوظ بنایا جائے۔ حاجی منظور خان آفریدی کا کہنا تھا کہ محکمہ ایکسائز اینڈ نارکوٹکس کنٹرول نے منشیات کے خلاف ہمہ گیر مہم کا آغاز تین اہم اہداف کے ساتھ کیا ہے جن میں ہر قسم کی منشیات کے طلب و رسد کے ذرائع مسدود کرنا، نوجوانوں میں اسکے استعمال کی موثر روک تھام اور نشئی لوگوں کا علاج و بحالی شامل ہیں۔قبل ازیںسابق کمشنر پشاور کی جانب سے منشیات کے عادی افراد کی بحالی کے حوالے سے بھی ایک مہم چلی تھی جس کے خاطر خواہ نتائج کی عدم برآمدگی اپنی جگہ سوالیہ نشان ہے ہر دو دعویداروں کے دعوئوں کی تردید و تصدیق کو اگر حقائق کی کسوٹی پر پرکھا جائے تو یہ زیادہ مشکل نہیں کوئی بھی شخص فٹ پاتھوں اور بی آر ٹی پلوں کے نیچے حیات آباد بھرمیں اور کارخانو کے مقام پرجا کراس امر کا بخوبی اندازہ لگاسکتا ہے کہ صوبائی وزیر کے دعوئوں میں کس حد تک صداقت ہے اور متعلقہ محکموں کی کارکردگی کیا ہے ۔ قبل ازیں انہی صفحات اور کالموں میں باقاعدہ صورتحال کی تفصیلی نشاندہی اور منشیات لانے اور فروخت کرنے کے راستوں اور طریقہ کار بارے تک بحث ہو چکی ہے مگر کسی ایک جگہ بھی پولیس اور انسداد منشیات کے ذمہ داروں کی جانب سے عملی طور پر تدارک کی کوئی ایک سنجیدہ کارروائی بھی سامنے نہیں آئی یا تو صوبائی وزیراپنے محکمہ کی کارکردگی کے حوالے سے لاعلم ہیں یا پھر ان کو غلط معلومات دی جارہی ہیں بہرحال صوبائی وزیر اگرزحمت فرما کر گاڑی میں بیٹھے بیٹھے پشاور کی سڑکوں پرادھر ادھرنظر دوڑائیں تو ان کو صورتحال کا اندازہ ہو گا اور اگر وہ محولہ مقامات جانے کی زحمت کریں اور لوگوں سے بات چیت کریں تو دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوجائے گا صوبائی وزیر اتنے بے خبر نہیں ہوسکتے بہتر ہوگا کہ تجاہل عارفانہ کی بجائے حقیقت حال کا بچشم خود ملاحظہ کرکے اپنے محکمے کے حکام کی سرزنش کریں تاکہ عوامی سطح پراس طرح کے دعوئوں کو یوں چیلنج نہ کیا جا سکے۔

مزید پڑھیں:  ''ضرورت برائے بیانیہ''