بجٹ سے وابستہ امیدیں اور توقعات

وزیراعظم شہباز شریف نے عالمی مالیاتی فنڈ سے رواں ماہ معاہدہ ہونے کی اُمید ظاہر کی ہے ا نہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف فنڈنگ حاصل کرنے کے لئے پاکستان تمام اقدامات مکمل کر چکا ہے، اُمید ہے کہ ہمیں اس ماہ کوئی اچھی خبر ملے گی۔ خیال رہے کہ اس سے قبل اس قسم کی خبریں سامنے آئی تھیں کہ حکومت نے آئی ایم ایف سے موجودہ پروگرام نامکمل حیثیت میں ہی ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور موجودہ حکومت کا ارادہ ہے کہ وفاقی بجٹ کے بعد آئی ایم ایف کے ساتھ نیا معاہدہ کیا جائے۔دریں اثناء گزشتہ روز وزیرِ مملکت برائے خزانہ ڈاکٹرعائشہ غوث پاشا نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ میں بات کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ بجٹ میں مہنگائی کنٹرول کرنا سب سے بڑا چیلنج ہے، اس میں خسارے اور مہنگائی کا توازن قائم کرنا ہو گا۔ آئندہ بجٹ ٹیکس فری نہیں دے سکتے۔امر واقع یہ ہے کہ پاکستان میں مئی میں مہنگائی کی شرح ریکارڈ 38فیصد تک جا پہنچی ہے اور یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ آئندہ مہینوں میں اس میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ایسے میں عوام کے ذہن میں یہی سوال ہے کہ کیا آنے والا بجٹ عوام کو کوئی ریلیف دے سکے گا؟اس وقت پاکستان کو آئی ایم ایف سے قرضے کی قسط کئی ماہ کی بات چیت کے باوجود نہیں مل سکی اور اس حوالے سے تاحال ایک ڈیڈلاک برقرار ہے۔ یوں حکومت نو جون کو پیش ہونے والا بجٹ آئی ایم ایف کی فنڈنگ کے بغیر پیش کرنے جا رہی ہے۔وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار سے جب پوچھا گیا کہ آئی ایم ایف اور دیگر بیرونی امداد کے بغیر وہ بجٹ کیسے بنائیں گے تو انھوں نے کہا کہ کوشش کریں گے کہ عوام پر بوجھ نہ پڑے۔پاکستان کی وزارتِ خزانہ کی جانب سے رواں ماہ جاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کا کل بجٹ خسارہ ساڑھے تین کھرب روپے تک جا پہنچا ہے۔اس وقت حکومت کے لیے عوام کو ریلیف دینے اور آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کے درمیان توازن برقرار رکھنا سب سے بڑا چیلنج ہو گا۔ پاکستان ایک مشکل دور سے گزر رہا ہے اور موجودہ صورتحال خاص طور پر بہت زیادہ سنگین ہے، حکومت کے لیے آئی ایم ایف کے نویں اور دسویں قرض پروگرام کا حصہ بننا بھی ضروری ہے اور اس وقت مہنگائی کی یہ صورتحال ہے کہ یہ تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے تو اس میں عوام بھی ریلیف کے منتظر ہیں۔ایسے میں بظاہر تو حکومت کے لیے آئی ایم ایف کی شرائط پر پورا اترنے اور عوام کے لیے ریلیف بجٹ پیش کرنے کے درمیان خاصا مشکل فیصلہ درپیش ہو سکتا ہے تاہم ماہرین کے مطابق حکومت اسے اپنی مرضی کا بجٹ بنانے کے موقع کے طور پر دیکھ سکتی ہے۔یہ صورتحال اپنی جگہ لیکن اس کے ریوینیو اہداف پورے کرنا اور ان کے اثرات کو قابو کرنابہت مشکل ہو گا۔ یعنی اس بجٹ پر عمل کرنا اصل مسئلہ ہو گا۔ آئی ایم ایف ہمیشہ سے یہ مطالبہ کرتاآیا ہے بجٹ حقیقت کے قریب ہونا چاہیے تاکہ اہداف پورے کیے جا سکیں۔پاکستانی معیشت کا بنیادی مسئلہ اس کی پیداواری صلاحیت کا کم ہونا ہے۔ یعنی آپ کی معیشت وہ اشیا پیدا نہیں کرتی جن کی طلب باقی دنیا کو ہے تو آپ کی برآمدات بہت کم ہیں اور معیشت کے اندر روزگار کے مواقع بھی کم ہیں۔اس وجہ معیشت کو میں مالی خسارہ، ٹیکس کی مد میں جمع ہونے والی رقوم میں کمی، بیروزگاری، قرضوں کی ادائیگی میں مشکلات اور روپے کی قدر گرنے جیسی مشکلات درپیش ہیں۔ اور یہ اس بنیادی مسئلے کا حل نکالے بغیر ہر بجٹ میں سامنے آتی رہیں گی۔اس صورتحال میں حکومت کو ایک مقبول بجٹ دینے کی بجائے حقیقت پسندانہ بجٹ دینے کی ضرورت ہے۔اس وقت25ارب ڈالر کی تو صرف بیرونی قرضوں کی مد میں فنانسنگ کرنے کی ضرورت ہے اور اگرریوینیو کے اہداف پورے کرنے ہیں تو اس کے لیے بھی آپ کو حقیقت پسندانہ بجٹ کی ضرورت ہے۔ان حالات میںدیکھا جائے تو قومی بجٹ کی تیاری کے لیے موجودہ دور سے زیادہ مشکل وقت نہیں ہو سکتا تھا۔ اگلے مالی سال کے دوران گہرے ہوتے ہوئے ملکی سیاسی بحرانوں اور ناموافق عالمی اقتصادی حالات کے درمیان، انتخابات اور غیر ملکی فنڈنگ سے متعلق غیر یقینی صورتحال کا مطلب ہے کہ ہمارے مالیاتی حکام اس سال کا بجٹ محض امید کے سہارے پیش کریں گے۔حکومت پہلے ہی ڈیفالٹ سے بچنے کے لیے معیشت کا گلا گھونٹ چکی ہے کیونکہ آئی ایم ایف کے ساتھ تعلقات میں اتار چڑھائو کی وجہ سے غیر ملکی فنڈنگ دستیاب نہیں۔ملک کو جمود کا سامنا ہے جس کی نشاندہی اقتصادی ترقی میں کمی، بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور مہنگائی میں اضافہ سے ہوئی ہے طویل مدتی اقتصادی بحالی اور پائیداری کے لیے مالیاتی، گورننس اور ڈھانچہ جاتی اصلاحات پر توجہ مرکوز کرنے والے بجٹ کے لیے اس سے زیادہ سنگین صورتحال کبھی نہیں رہی۔پاکستان کو اگلے تین سالوں میں اپنے بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں کو پورا کرنے کے لیے 77 بلین ڈالر سے زیادہ کی غیر ملکی فنانسنگ کی ضرورت ہے، جس میں قرضوں کی ادائیگی بھی شامل ہے۔ یہ آئی ایم ایف کے بغیر ممکن نہیں۔ مالی طور پر غیر ذمہ دارانہ بجٹ فنڈ کے ساتھ ایک نیا سودا اور بھی مشکل بنا سکتا ہے۔ملکی آمدنی کے وسائل بھی نایاب ہیںدستیاب وسائل صرف اخراجات کو پورا کرنے کے لیے ناکافی ہیں، ترقی، دفاع، تنخواہوں، پنشن وغیرہ کے لیے مالی اعانت تو اپنی جگہ ایک مسئلہ ہیں۔اس سے عام آدمی کے لیے مجوزہ مالیاتی محرک اور ریلیف اس وقت تک ناقابل عمل ہے جب تک کہ حکومت ساری باتوں کو ایک طرف رکھ کر اندرونی قرضوں میں تیزی سے اضافہ کرنے اور مزید قرضوں کو جمع کرنے کے لیے تیار نہ ہو، جس سے عوام کو مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ عوام۔آنے والا بجٹ قلیل مدتی سیاسی فائدے کے لیے لوگوں اور کاروباری اداروں کو عارضی ریلیف دینے کی بجائے غیر یقینی حالات سے گزرنے کے لیے حکومت کے عزم اور معیشت کی تشکیل نو کے لیے زیادہ امتحان ہو گا۔افسوس کی بات یہ ہے کہ اب تک کے اشارے یہ ہیں کہ حکومت کے ان اصلاحات پر عمل کرنے کے بجائے مالیاتی طور پر غلط راستے پر چلنے کا امکان زیادہ نظر آتا ہے بجائے اس کہ حکومت اپنے قرض دہندگان سے طویل مدتی معاشی استحکام کو یقینی بنانے کا وعدہ پورا کرے۔

مزید پڑھیں:  اپنے جوتوں سے رہیں سارے نمازی ہو شیار