مشرقیات

لکھنے لکھانے کا تعلق میلان طبع اور ارادے سے ہوتا ہے۔کوئی کتنا بڑا لکھاری کیوں نہ ہو، کبھی کچھ لکھنے کی طرف طبیعت مائل نہ ہو، طبیعت کی خرابی ہو اور تھکن زائل نہ ہو، ارادہ بھی نیم دروں نیم بروں ہو، تو اسکا قلم اڑیل ٹٹو کی طرح ساکت و جامد ہو جاتا ہے۔ قلم کو ایڑ لگائیں یا ایڑی چوٹی کا زور، ایک آدھ سطر لکھنے کے بعد ذہن کرنے لگتا ہے شور، طبیعت ہونے لگتی ہے بور۔ اگر صبح کو لکھنا شروع کیا ہو، تو آدھا دن گزر جاتا ہے، لیکن کاغذ رہا کورا کا کورا۔ تھوڑا بہت لکھا، اور دل نہ لگا، آدھا صفحہ پھاڑا، پھر لکھا پھر پھاڑا، یہاں تک کہ بھر گیا آدھا بورا۔ بالآآخر آدھے دن کے لئے قلم چھوڑ ہڑتال شروع کردی۔ جی چاھا کچن میں جاکر دیکھیں کیا پک رھا ہے؟ بیگم نے کہا کچھ غصہ آرھا ہے اور کچھ لاوہ پک رھا ہے۔ بیگم کا غصہ بجا تھا، دوپہر کا ایک بجا تھا اور لکھاری پہ نا جانے کیا دھن سوار تھی کہ ابھی تک سودا سلف لاکر نہ دیا۔ آدھا سبق یاد تھا سو بھول گئے۔ کھسیانے ہو کر پو چھا کیا پکایا ہے؟ بیگم نے جل کر کہا آدھا تیتر آدھا بٹیر۔
پرانے زمانے کی بات ہے جب سب کچھ سستا ملتا تھا۔ تب اٹھنی، چونی اور ادھنا کے سکے ہوا کرتے تھے۔ گھر میں آدھا پاؤ گوشت آتا تھا۔ برکت کا زمانہ تھا، سارا نہیں تو آدھا گھر پیٹ بھر کر کھاتا تھا۔ باقی آدھا گھر دہی میں شکر ڈال کر، گزارا کرتا تھا۔ سادگی بہت تھی، گھر میں کھانے پینے کی کوئی چیز آتی تھی تو اس میں سے محترم خود کچھ نہ کھاتے اور دونوں بچوں میں آدھی آدھی تقسیم کردیتے تھے۔ والدین کی یہی قربانی تھی کہ انکی صحت آدھی رہ گئی۔ ایک دفعہ کئی لوگوں کے ساتھ مشترکہ دس دس روپے کی ایک کمیٹی ڈالی۔ کل پچیس روپے کی کمیٹی نکلی۔ دونوں نے ساڑھے بارہ روپے، ساڑھے بارہ روپے آدھے آدھے بانٹ لئے۔ فی زمانہ تو کوئی ایک آدھ ہی ملے گا جو انصاف سے آدھ اودھ کرکے دوسرے کو اسکی رقم دے دے۔ اب تو یہ حال ہے کہ رقم کا مطالبہ کیا جائے تو رقم دینے کی بجائومار مار کر ادھ موا کر دیا جاتا ہے۔ انصاف بھی آدھا ملتا ہے۔ وہ بھی آدھی رات کو۔ آجکل کے لوگوں کا بھی اسمیں قصور ہے۔ وہ آدھا سچ بولتے ہیں۔ بیچارے نثر لکھنے والے کی پریشانیاں اتنی بڑھ گئی ہیں کہ علاج کے باوجود انکے آدھے سر کا درد ٹھیک نہیں ہوتا۔ وہ ڈاکٹر کو اپنی داستان غم سنائو بھی تو وہ آدھی بات سنتے ہیں، باقی آدھی سنی ان سنی کر کے کہہ دیتے ہیں کہ بظاہر مسئلہ ٹینشن اور بے چینی کا ہے بیماری کا نہیں۔ بات تو کچھ کچھ دل کو لگتی ہے، لیکن شائد یہ بھی آدھا سچ ہے۔اب کیسے ڈاکٹر صاحب سے کیسے کہیں کہ پلیز آدھی فیس واپس کر دیں کیونکہ وہ آدھے سر کے درد کا علاج کر رہے ہیں پورے کا نہیں۔ مگر ایسا کبھی نہیں ہوا کہ وہ مریض سے آدھی فیس وصول کریں۔

مزید پڑھیں:  بجلی ا وور بلنگ کے خلاف اقدامات