سنگین ہوتا معاشرتی مسئلہ

ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں22ملین سے زائد نوجوان لڑکے اور لڑکیاں شادی کے منتظر ہیں ۔صورتحال یہ بن گئی ہے کہ ملک کا ہرگھر اچھے رشتے کی تلاش میں ہے اور تقریباً پاکستان میں ہر گھر میں یہ ایک مسئلہ ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ہر گھر میں نہیں تو ہر دوسرے گھر میں نوجوانوں خاص کر لڑکیوں کے مناسب رشتے نہ آنے کا مسئلہ گھمبیر سے گھمبیر تر ہوتا جارہا ہے اگرچہ اب ہمارے معاشرے میں بھی لڑکوں کے ساتھ ساتھ اب لڑکیاں بھی اپنے لئے رشتہ خود تلاش کرنے کی آزادی سے مستفید ہو رہی ہیں لیکن من حیث المجموع ہمارے معاشرے کے اطوار و اقدار ایسے نہیں کہ اس کی حوصلہ افزائی ہو اور نہ ہی ایک خاص ماحول میں تربیت پانے کے باعث ہر کسی کے لئے ایسا ممکن ہے بہرحال اس سے قطع نظر مشکل امر ذات برادری اور حیثیت و مرتبہ جیسی رکاوٹیں بھی کم مشکلات کا باعث نہیں اعلیٰ تعلیم اور عہدوں کی دوڑ بھی لڑکیوں کی شادی کی عمر نکلنے کی راہ میں ایک بڑا مسئلہ ہے پھر رسم و رواج جہیز کی لعنت اور نمودو نمائش شادی پر بھاری اخراجات بھی مناسب اور بروقت رشتے ہونے کی راہ کی رکاوٹیں ہیں ایک مسلمان معاشرہ اور مسلمان ملک ہونے کے باوجود بدقسمتی سے ہمارے رسوم و رواج اسلامی تہذیب اور شرعی اصولوں کے مطابق نہیں اگر شرعی طور پر دیکھا جائے تو اسلام میں نکاح کو سہل اور آسان اور سادہ بنانے اور رکھنے پر خاص طور پر توجہ دی گئی ہے ہم اگر اپنے پاک نبیۖ کی نورچشم فاطمہ کی حضرت علی سے رشتہ طے ہونے سے لے کر نکاح و رخصتی کو نمونہ بنا کر اس پر عمل پیرا ہو توں کم ہی مسلمان بچیاں رشتے سے محروم رہ جائیں گی اور نوجوانوں کو نکاح اور شادی کی مشکلات پیش نہیں آئیں گی درپیش مسئلے کا واحد حل اور امید کی کرن بس یہی ہے کہ ہم اپنے دین اور مذہب کی تعلیمات کے مطابق رشتے کرنے کو ترجیح دیں او خواہ مخواہ میں شادی اور رشتہ قائم کرتے ہوئے رسوم و بدعات اور تعصبات سے خود کو دور رکھیں تاکہ سادہ اور سہل طریقہ اختیار کرنے کے باعث زیادہ سے زیادہ جوڑے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوسکیں اور اس بڑھتی ہوئی تعداد میں کمی آئے۔ اس حوالے سے علمائے کرام اور سول سوسائٹی کو مل کر شادی اور نکاح کو سہل سادہ اور فضول رسم و رواج سے پاک بنانے کی مہم چلانی چاہئے تاکہ گھروں میں بیٹھی رہ جانے والی بچیوں کی تعداد میں کمی آئے اور نوجوان نکاح ورشتہ کو بوجھ سمجھ کر احتراز پرمائل نہ ہوں۔

مزید پڑھیں:  ضمنی انتخابات کے نتائج