مسئلہ کشمیر میں میڈیا کا کردار

فی زمانہ میڈیا کا کردار دنیا میں بہت اہمیت کا حامل ہو کر رہ گیا ہے، میڈیا ذہن سازی سے معاملات کو اجاگر کرنے اور حقیقت حال دنیا تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میڈیا کا دائرہ وسیع ہونے کے ساتھ اس کی طاقت اور اثر پزیری میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے، میڈیا کے ذریعے سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ ثابت کرنا آسان ہے، کشمیری عوام کی تحریک میں بھی میڈیا کا کردار بہت اہم رہا ہے، کشمیری پاکستانی اور بین الاقوامی میڈیا نے ہر دور میں کشمیر کی اصل تصویر دنیا کو دکھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے، وقت گزرنے کے ساتھ بین الاقوامی میڈیا نے کشمیر کے حالات پر توجہ دینا چھوڑ دی یا کسی حد تک کم کر دی، اس رویئے کا آغاز نائن الیون سے ہوا جب دنیا میں آزادی کی اکثر تحریکوں کو دہشت گردی کے ساتھ بریکٹ کیا گیا، بالخصوص فلسطین اور کشمیر کی تحریکوں کے ساتھ ایک معاندانہ رویئے کا آغاز ہوگیا، دہشت گردی کے نام پر جو ماحول بنا اس میں طاقتور مغربی میڈیا نے بھی کشمیر کی تحریک میں تصویر کا اصل رخ دکھانے سے گریز کا راستہ اپنایا، اس پالیسی کا کشمیر کی تحریک کو ناقابل تلافی نقصان ہوا، نائن الیون سے پہلے مغرب کے بڑے اخبارات میں وقفے وقفے سے کشمیر کی اندرونی صورت حال پر چشم کشا رپورٹس شائع ہوتی تھیں مگر اس کے بعد یہ سلسلہ کم ہوتا چلا گیا، بھارت نے بھی بین الاقوامی میڈیا کی کشمیر تک رسائی کو پہلے مشکل اور بعدازاں ناممکن بنا دیا، کئی دہائیوں سے نہ تو انسانی حقوق کی کسی بین الاقوامی تنظیم اور نہ میڈیا کے کسی نمائندے کو کشمیر کی حدود میں داخل ہونے کی اجازت ہے جس کی وجہ سے بین الاقوامی میڈیا حالات کو درست تناظر میں پیش نہیں کر سکتا، بین الاقوامی میڈیا کی اس بے بسی اور بندش کے بعد ساری ذمہ داری پاکستان اور کشمیری میڈیا کے کندھوں پر آن پڑی۔ پاکستان کا میڈیا اس حوالے سے مربوط اور منظم انداز سے کام نہیں کر سکا، الیکٹرونک میڈیا کی آمدکے بعد یہ توقع تھی میڈیا زیادہ زور دار طریقے سے کشمیر کی نمائندگی کرے گا مگر یہ توقع پوری نہیں ہو سکی، الیکٹرونک میڈیا نے کشمیر کے مسئلے کو پی ٹی وی کا مسئلہ سمجھنے کی روش اپنائی، سوشل میڈیا کی آمد اس ماحول میں تازہ ہوا کا ایک خوش گوار جھونکا ثابت ہوئی اور لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت اس میڈیم کو کشمیری عوام کی نمائندگی کے لئے استعمال کیا، برہان وانی جیسے مقبول کردار اور پوسٹر بوائے کے طور پر سامنے آنا سوشل میڈیا کا ہی مرہون منت تھا مقبوضہ کشمیر میں صحافت انتہائی مشکلات کا شکار ہے، پانچ اگست کے بعد حالات و واقعات کو جبر اور بے خبری کے پردوں کے پیچھے چھپانے کی جو رسم شروع ہوئی ہے کشمیر کا صاف گو اور جرأتِ اظہار کا حامل میڈیا اس منظر میں قطعی ناقابل قبول ہوتا جا رہا ہے، پانچ اگست کے بعد کسی بھی کشمیری صحافی کی خبر یا تصویر سے ناراض ہو کر فوجی کیمپوں میں پوچھ گچھ کے لئے طلب کرنا اب معمول بن کر رہ گیا، کشمیر میں تو گزشتہ تین دہائیوں سے صحافت کو پہلے ہی تنی ہوئی رسی پر سفر جیسے حالات کا سامنا رہا ہے مگر پانچ اگست کے بعد صحافت کی رہی سہی آزادی بھی دائو پر لگ چکی ہے، 1990ء میں جب کشمیر میں مسلح تحریک تیزی سے اُبھر رہی تھی تو کشمیر کے ایک معتبر صحافی اور روزنامہ الصفاء کے ایڈیٹر شعبان وکیل کو قتل کر کے صحافت کا گلہ گھونٹنے کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا قلم کے کئی سپاہیوں کو چاٹتا ہوا چند برس قبل ایک معروف اخبار نویس اور ایڈیٹر رائرنگ کشمیر شجاعت بخاری کے قتل تک جا پہنچا، پانچ اگست کے بعد یونین ٹیریٹری کے نام پر جبر کا جو ماحول قائم کیا گیا وہاں خبر سے زیادہ بے خبری کے کلچر کی ضرورت ہے، یوں اس نئے نظام میں آزاد ضمیر صحافی اور صحافت ”مس فٹ ”ہے۔ عالمی ذرائع ابلاغ پر تو کشمیر کے دروازے عرصہ دراز سے بند ہیں اب بھارتی اور بین الاقوامی میڈیا کے ساتھ کام کرنے والے کشمیری صحافیوں کا وجود اور سرگرمیاں بھی ناگوار ہوتی جا رہی ہیں جس کا ثبوت کشمیر کے تین فعال صحافیوں مسرت زہرہ ، گوہر گیلانی اور پیرزادہ عاشق کے خلاف بغاوت کے مقدمات ہیں، ان مقدمات نے کشمیری صحافت کے اوپر منڈلانے والی نادیدہ تلوار کو عیاں کر دیاہے، مسرت زہرہ سری نگر کے ایک محنت کش کی بیٹی ہیں اور کشمیر کے آشوب زدہ حالات نے مسرت کو فوٹو جرنلزم کی طرف راغب کیا، دو سال سے مسرت زہرہ خاک وخون میں لتھڑی لاشوں، بین کرتی عورتوں اور پرنم آنکھوں کے حامل بچوں کی تصویریں بنا کر عالمی ذرائع ابلاغ کو بھیج رہی ہیں، نیوز پورٹل کشمیر والا کے ایڈیٹر امین شاہ کئی برس سے محض خبر دینے کی پاداش میں پابند سلاسل ہیں، آج کے کشمیر کی اول وآخر کہانی چونکہ یہی حالات اور مناظر ہیں اس لئے ایک پروفیشنل فوٹو گرافر کی طرح مسرت کے پاس یہی کچھ فلم بند کرنے اور رپورٹ کرنے کو ہوتا ہے، کئی ایسی وڈیو ز میں مسرت گولیوں کے دوران کیمرہ اُٹھائے دوڑتی نظر آتی ہیں، کشمیر جیسے روایتی معاشرے میں ایک خاتون کا اس انداز کی صحافت جان جوکھم کا کام ہے، مسرت زہرہ کی تصویریں الجزیرہ اور نیویارک ٹائمز میں بھی شائع ہوچکی ہیں، عاشق پیرزادہ بھارتی اخبار دی ہندو کے ساتھ کام کرتے ہیں، اس سے پہلے شجاعت بخاری مرحوم بھی دی ہندو سے وابستہ تھے، دی ہندو جنوبی بھارت کا اخبار ہے اور یہ مزاج اور پالیسی کے اعتبار سے معتدل ہے، اس اخبار میں سہاسنی حیدر جیسی خواتین کی کشمیر کے حوالے سے حقائق پر مبنی رپورٹس چھپتی ہیں، عاشق پیرزادہ اپنے پیش رو شجاعت بخاری کی طرح اپنی رپورٹس میںکشمیر کے حالات کی عکاسی کرنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں یہ بات بھارتی حکام کو گوارا نہیں۔ اس فہرست میں تیسرا نام گوہر گیلانی کا ہے جو ایک متحرک صحافی ہیں اور اپنی رپورٹس میں کشمیر میں چاروں طرف بکھرے واقعات کو دیانت داری سے رپورٹ کرتے ہیں، ان تینوں صحافیوں کے خلاف مقدمات قائم کرتے ہوئے انہیں تھانوں میں پیشیوں پر مجبور کیا جانے لگا ہے، اس سلسلے کا آغاز مسرت زہرا کے خلاف بغاوت کا مقدمہ قائم کرنے سے ہوا۔ مقدمہ درج ہوتے ہیں انہیں تھانوں میں پیشی کے لئے مجبورکرنے کا سلسلہ شروع کر دیاگیا، صحافت کسی بھی معاشرے کا آئینہ ہے اور بھارت کو آئینہ توڑنے کی بجائے اپنے چیچک زدہ جمہوری چہرے کی پلاسٹک سرجری کرنا چاہئے، صحافت کا گلہ گھونٹے کی بجائے اپنے کردار اور رویئے پر نظرثانی کر نی چاہئے، تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ قلم کو زنجیر پہنانا کبھی کسی مسئلے کا حل نہیں رہا۔ بین الاقوامی میڈیا کی دلچسپی کم ہونے اور مقبوضہ کشمیر کی صحافت کا گلہ گھوٹنے کے بعد اب پاکستان کے میڈیا کی ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں۔ پانچ اگست کے بعد بھارت نے مسئلہ کشمیر کی حرکیات کو ہی بدل دیا ہے، اس ماحول میں پاکستان کے میڈیا کو بین الاقوامی اور مقبوضہ کشمیر کے اندرونی میڈیا دونوں کی کمی کو دور کرنا ہے۔ پاکستان کا سرکاری میڈیا آج بھی اپنی ذمہ داری نبھا رہا ہے مگر الیکٹرونک میڈیا کو بھی اپنے کردار کا جائزہ لینا چاہئے، سوشل میڈیا البتہ اپنا کردار بھرپور انداز سے ادا کر رہا ہے اس کو مزید مربوط، منظم اور بامعنی بنانا ہوگا، اس سے جہاں کشمیر میں نئی جنریشن میں امید کو زندہ رکھا جا سکتا ہے وہیں دنیا تک حقیقت حال پہنچائی جا سکتی ہے۔

مزید پڑھیں:  ریگی ماڈل ٹاؤن کا دیرینہ تنازعہ